کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 48
فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ۔ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ) ] سورہ زخرف :26 تا 28 [ یعنی: ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے فرمایا : ’’جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان سے بیزار ہوں، سوائے اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے ہدایت بھی دے گا، بس آپ نے اس کو اپنے پچھلوں کے لیے کلمہ ٔباقیہ بنا دیا تا کہ وہ شرک سے بازآتے رہیں۔‘‘ لمحہ فکریہ ان مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، توحید کے متوالے تو بنتے ہیں مگر مشرکین سے نفرت نہیں کرتے، شرک کا رد نہیں کرتے، ان کے شادی بیاہ غیر مسلموں جیسے، ان کے مراسم مشرکین کے ساتھ کیسے دور ہوں گے۔ مسلمان ہیں کہ کلمہ طیبہ کا اقرار بھی کرتے ہیں’’ مگر جہاں کوئی لگاہے لگا رہے‘‘ کے سنہری کلیہ پر بھی عمل پیرا ہیں۔ کیا یہ لوگ توحید کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا ایمانی کمزوری ان کا مقدر تو نہیں ؟ عمل: سیرت ابراہیم علیہ السلام سے توکل کا درس سیرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ صاف گوئی اور بے باکی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مادی سہارے چھن جائیں، لوگ مدد کرنے سے دست کش ہو جائیں مگر اللہ پر مکمل توکل، کامل یقین اور اکمل بھروسہ رکھا جائے، غیروں پر توکل کرنا اور ان کے سہارے کو قوی سمجھنا رب کے سارے اور اس پر توکل میں کمزوری دکھانا شرک ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ بار بار ارشاد فرما رہے ہیں : ( وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ) ] سورہ ابراہیم :12 [ یعنی: ’’ توکل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔‘‘