کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 44
ستیاناس ہو تکبر و عناد کاکہ اس کے سامنے تو سینکڑوں دلیلیں بے سود اور ہزاروں وعظ بے اثر ہی رہتے ہیں۔
کلامِ آخریں
سیاق قرآن گواہ ہے کہ آگ سے نکل کر آپ علیہ السلام قوم سے یوں مخاطب ہوئے:
( وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ) ] سورہ عنکبوت :25 [
یعنی: ’’ تم نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش صرف دنیا کی زندگی میں اپنی دوستی قائم رکھنے کے لئے کی ہے، مگر تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے کے انکاری بن جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگے اور تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا۔‘‘
نمرود……… موت کے دہانے پر
اپنے تائیں خدا کہلانے والا نمرود اب اس فکر میں ہے کہ میری حیثیت ختم ہو جائے گی جھوٹی خدائی کے ڈھول کا پول کھل جائےگا، حاکم ا علی اللہ الجلال والاکرام کی ذات کا کون انکار کر سکتا ہے؟ دل میں تو جانتا تھا کہ میری خدائی کس در جہ کی ہے؟ مگر اپنی انانیت کی خاطر ہٹ دھرمی پر تل جاتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑا اور مناظرہ شروع کر دیتا ہے، جسے قرآن مجید میں ان الفاظ میں محفوظ کیا ہے:
( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ )
] سورہ بقرہ :258 [