کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 43
یعنی اپنی ہی زبانوں سے اپنے معبو دوں کی بے کسی کا نوحہ کر رہے تھے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شکا یت ہے کہ وہ عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔
سچ ہے:
سمجھ تو آسکتا ہے نقطۂ توحید مگر
تیرےدماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
حکمرانوں اور عوام کے اسی فیصلے کے مطابق ایک بہت بڑی عمارت میں آگ سلگائی گئی، جس میں آپ علیہ السلام کو ڈال دیا گیا، اب ہر فرد منتظر تھا کہ ابھی ہمارے بزگوں کا گستاخ جل کر راکھ ہو جا ئے گا، اور ہمارے بزرگوں کی عظمت قائم رہے گی، ہمارا مذہب سچا ثابت ہو گا، مگر اللہ رب العزت بھی اپنے وفادار بندے کو بے یارو مددگار ہر گز نہیں چھو ڑتا، چنانچہ رحمت ِ خدا وندی جوش میں آتی ہے آسمانوں سے حاکم مطلق کا حکم آگ پر نا فذ ہوتا ہے:
( قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ۔ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ ) ] سورہ انبیاء :69، 70 [
یعنی: ہم نے کہا : ’’ اے آگ! ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی والی ٹھنڈی بن جا، (چنانچہ آگ کی فطرت ہی بدل گئی) قوم نے تو آپ علیہ السلام سے چال چلنے کا ارادہ کیا تھا مگر ہم نے انہیں ناکام کردیا۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعا لیٰ ہے:
( فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) ] سورہ عنکبوت :24 [
یعنی : ’’ اللہ نے ان کو آگ سے نجات دی، بلاشبہ اس میں ایمان لانے والی قوم کیلئے بہت سی نشا نیاں ہیں۔‘‘
آزر دنگ رہ گیا…………قوم حیرت زدہ ہو گئی، نمرود ششدر رہ گیا، مگر اللہ رب العزت کے اتنے بڑے کمال کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی ایمان کی توفیق نہ مل سکی۔