کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 39
عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ ) ] سورہ صافات :91 تا93 [ یعنی: ’’آپ علیہ السلام ان کے معبودوں تک جا پہنچے اور پوچھا: تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم بات تک نہیں کرتے؟ پھر تو (پوری قوت کے ساتھ)دائیں ہاتھ انہیں مارنے پر پِل پڑے۔‘‘ اور ان کا جو حشر کیا اس کا نقشہ سورہ انبیاء نے یوں پیش کیا ہے: ( فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ ۔ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ ۔ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ ) ] سورہ انبياء :58تا60 [ یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، البتہ صرف بڑے بُت کو چھوڑ دیا، یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف لوٹیں۔ [1] وہ کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کا یہ حشر کس نے کیا ہے؟ بولے: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے سنا ہے، اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔‘‘ گستاخی کا مقدمہ اور شاہی عدالت کا فیصلہ بزرگوں کے ادب و احترام میں مبالغے سے کام لینے والے لوگ اندھادھند عقیدت میں آکر ہمیشہ اعتدال پسند حق نواز افراد کو گستاخ ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ اس مبالغہ آرائی میں وہ خود نہ صرف بزرگوں کے گستاخ بلکہ اللہ کے بھی گستاخ بن جاتے ہیں، مگر جہالت اتنی ہوتی ہے کہ سمجھ نہیں پاتے، اسی قسم کے لوگوں کا سامنا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کرنا پڑا آپ علیہ السلام پر گستاخی کا الزام لگاکر حاکمِ وقت کے دربار میں لایا گیا، حکم تھا کہ: ( قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ ) ] سورہ انبياء :61 [ یعنی: ’’اسے مجمع عام میں لاؤ تاکہ لوگ اس کا انجام دیکھ لیں۔‘‘ چنانچہ آپ علیہ السلام کو لایا گیا اور یہ مکالمہ زیربحث آیا:
[1] ) کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اس کے کندھے پر ایک کلہاڑا بھی رکھ دیا۔