کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 37
( ؤ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ - قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ - قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ - قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ - قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ ) ] سورہ انبياء :52 تا56 [
یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم سے فرمایا: ’’یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا چیز ہیں؟ ‘‘انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے باپ دادا کو ان ہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ’’تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔‘‘ وہ کہنے لگے: کیا آپ ہمارے پاس سچی خبر لائے ہیں یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مذاق نہیں بلکہ یقینا تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور میں اس بات پر گواہ ہوں۔‘‘
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان سے ان کے خداوں کے متعلق ان کے خیالات، عقائد و نظریات پوچھنے کے ساتھ ساتھ پروردگار عالم کی بابت ان کے نظریات کے متعلق استفسار کیا، جس کا تذکرہ سورۃ صافات میں اس طرح ہے :
(إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ - أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ - فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ) ] سورہ الصافات :85 تا87 [
یعنی: ’’آپ علیہ السلام نےاپنے باپ اور قوم سے پوچھا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کو پسند کرتے ہو؟ ذرا یہ بتلاؤ کہ تم نے رب العالمین کے بارے میں کیا سمجھ رکھا ہے؟ ‘‘
جواباً قوم نے اور تو کچھ نہ کیا البتہ اپنے میلے میں آپ علیہ السلام کو مدعو کیا تاکہ آپ علیہ السلام ان کے خداؤں کے کرتب اور قوم کی ان سے عقیدت کو بچشم خود دیکھ سکیں، اور