کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 36
عمل: عقیدہ آخرت اور اس کی عملاً فکر
آپ علیہ السلام کی مذکورہ دعاؤں سے معلوم ہوا کہ آخرت کا دن برحق ہے، حساب وکتاب ہوگا جو موحد نہ ہوگا اس کے حق میں اس کے اموال و اولاد سودمند نہ ہوں گے اور اس دن رشتے داری کام آئے گی نہ روپیہ پیسہ، صرف قلب سلیم والا انسان جنت میں ہمیشہ رہے گا اور مشرک ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آخرت کے بارے میں یہ اشد فکر اس بات کی متقاضی ہے کہ آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کی زبردست تیاری بھی کرنی چاہیے
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ) ] سورہ ممتحنه :6 [
یعنی: ’’البتہ تحقیق تمہارے لئے ان میں بہترین نمونہ ہے اس آدمی کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور جو پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بلاشبہ بے پرواہ تعریف کیا گیا ہے۔‘‘
………………………
آپ علیہ السلام نے بڑے ہی نرم لہجے میں یہ گفتگو باپ اور قوم سے کی، اسی طرح کئی مجموں تبلیغ کرتے رہے، حتی کہ ایک موقع پر واشگاف انداز میں اس طرح توحید بیان کی کہ باپ قوم اور حاکم وقت سب دشمن اور خون کے پیاسے بن گئے، حتی کے آگ جلا کر آپ علیہ السلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہا، مگر اللہ رب العزت نے انھیں ذلت کے گھاٹ اتارا اور اپنے خلیل علیہ السلام کی حفاظت فرمائی، اس واقعہ کو قرآن حکیم نے تین مقامات پر یعنی سورہ انبیاء، سورہ عنکبوت، اور سورہ صافات میں تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا، آئیے توحید دشمنی اور حق پر ثابت قدمی کی حیران کن داستان پڑھیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: