کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 35
الْبَعِيدُ - يَدْعُو لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلَى وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ ) ] سورہ حج :12 تا13 [
یعنی: ’’ (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو نہ انہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان، یہی تو دور دراز کی گمراہی ہے، ایسے کو پکارتا ہے جس کا نقصان دینا اس کے نفع دینے سے زیادہ قریب ہے یقیناً یہ برا مولیٰ اور برا ساتھی ہے۔ ‘‘
………………………
یہ تبلیغ کرتے کرتے آپ علیہ السلام اپنے رب تعالیٰ سے مخاطب ہو کر دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ رب کو ماننے والے اسے کیسے پکارتے ہیں اور جہاں اپنے رب سے دعائیں کیں وہاں والد کی خیرخواہی اور ان سے کیے گئے وعدہ نے تڑپایا، باوجود والد کی سختی اور درشتگی کے اس کی بخشش و ہدایت کے لئے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
( رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ- وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ - وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ - وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ -وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ - يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ - إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ) ] سورہ شعراء :83 تا89 [
یعنی: ’’یا اللہ! مجھے قوت فیصلہ نصیب فرما اور میرا شمار نیک لوگوں میں رکھنا اور بعد والوں میں میرا ذکر خیر باقی رکھنا، مجھے نعمتوں والی جنت کے ورثاء میں سے بنا دے اور میرےباپ کو معاف فرما، وہ گمراہوں میں سے تھا، اور مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے والے دن (قیامت) رسوا نہ کرنا، جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گا، لیکن کامیاب وہی ہوگا جو اللہ کے سامنے قلب سلیم لے کر آئے گا۔‘‘