کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 34
گئے، صدیاں بیت گئیں انہیں یہاں سے کوچ کیے مگر ان کا چھلا ابھی تک زندہ سینکڑوں بیماریوں کے لیے جادو کی چھڑی اور اس کا تبرک جاری و ساری ہے۔ وہ الٰہ دین کے چراغ کی طرح جس گھر میں ہو شفاء وہاں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ جس ہاتھ میں ہو بیماریاں وہاں سے بھاگ جاتی ہیں۔ جس دکان میں داغ دیا جائے، رزق اس دکان والے پر عاشق ہو جاتا ہے، ہاں کسی کا بھلا ہو نہ ہو، وہ تو چھلے بیچ کر اپنے چند ٹکے کھرے کرتا ہے۔ اس رام کہانی سے محسوس یوں ہوتا ہے کہ پیر صاحب جدی پشتی لوہار تھے، ضرورتِ زمانہ سے سید بن بیٹھے اور اپنے چھلے اور کڑے بیچنے کے لیے شیطان نے انہیں پٹی پڑھا دی۔ الغرض غیروں سے شفاء مانگنے کے یہ سب طریقے شرک ہے اور آج شافی و کافی ذات باری تعالیٰ کی گستاخی اور بے ادبی ہے۔
عمل: نفع نقصان کا مالک کون؟
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے جو استفصارکیا کہ اَوْ يَنْفَعُوْ نَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی نفع نقصان کا مالک نہیں اور عبادت صرف اللہ کی کرنی چاہیے، جس کے ہاتھ میں نفع و نقصان کے تمام اختیارات ہیں اور قرآن کریم جابجایہی فرما رہا ہے کہ اللہ کے علاوہ معبودان باطلہ کسی کے نفع کی ملکیت تو دور کی بات اپنے لیے بھی نقصان دینے اور نقصان دور کرنے کے اختیارات نہیں رکھتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ) ] سورہ يونس :106 [
یعنی:’’ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی بات مت کرو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ نقصان، پھر اگر ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
( يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنْفَعُهُ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ