کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 33
کچھ خبر بھی ہے کہ جنہیں تم اور تمہارے اگلے باپ دادا پوج رہے ہوں، وہ سب میرے دشمن ہیں، مگر صرف اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری کرتا ہے، اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے، اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے مارے گا اور زندہ کرے گا۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ روز قیامت میرے گناہ معاف فرمائے گا۔‘‘ عمل: ایمان باللہ کی حقیقت مذکورہ بالا عقیدہ ابراہیم علیہ السلام سے معلوم ہوا کہ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسی کو ایک مانا جائے، اسی کو آسمانوں اور زمین کا مالک مانا جائے، اسی کو خالق اور رازق اور شفا دینے والا سمجھا جائے، اسی کے ہاتھوں میں موت و حیات، عزت و ذلت، فتح و شکست کے اختیار سمجھے جائیں، اور گناہوں کی معافی کے لیے اسی سے لو لگائی جائے، الغرض ذات صفات اور صفات کے تقاضوں میں اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کا شریک نہ ماننا ہی اللہ پر ایمان کہلاتا ہے جو کہ عقیدہ توحید کا بنیادی جزو اور اصل الایمان ہے۔ عمل: شفاء اور صحت دینے والا کون ؟ آج ایسے عقیدے والے لوگ نظر آتے ہیں، جو جب کوئی مرض آ جائے تو کہتے ہیں کہ مرشد کی ناراضگی کی وجہ سے مرض آیا ہے، اسی طرح پھر شفاء کے لیے بھی انہیں غائبانہ پکارتے ہیں، ان کے نام کے کڑے چھلے، ان کے نام کی نذر و نیاز کرتے ہیں، دھاگے باندھتے ہیں، شفا ءکے لئے ان کے درباروں کی خاک جسم پر ملتے ہیں، کئی دفعہ آپ نے دیکھا ہو گا لوگ بسوں میں دم شدہ چھلے اور دھاگے فروخت کرتے ہیں، جو تقریباً تمام اہم بیماریوں کے لیے مجرب نسخہ ہوتے ہیں، جاہل عوام انہیں (ہاے عامتہ الناس کی سادہ لوحی بلکہ بدبختی کہ) اتنا ہی نہیں جانتے کہ پیر صاحب ایک عرصہ ہوا مر