کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 31
كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ) ] سورہ آل عمران :175 [
یعنی: ’’یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ہی ڈرو۔‘‘
عمل: وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہو
اسی طرح آپ علیہ السلام کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق سمجھتے ہوئے صرف ماشاء اللہ کہنا چاہیے، کیونکہ ہر کام میں منشاء اور مرضی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی چلتی ہے، اس کی مرضی پر کسی کی مرضی غالب نہیں آسکتی اور نہ ہی اس کی چاہت کے علاوہ کوئی کچھ کرسکتا ہے اور نہ منشاء خداوندی کے علاوہ کچھ ہو ھی سکتا ہے۔
مگر ہم بعض لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق کہتے ہیں، جو اللہ چاہے اور اس کا حبیب چاہے، جو اللہ چاہے اور اس کا رسول چاہے، جو اللہ چاہے اور میرا مرشد چاہے وغیرہ۔ ۔ ۔ بلکہ کچھ لوگ تو صرف یہی کہتی ہیں کہ جو میرا مرشد چاہے وہی ہوگا، جبکہ یہ اعتقاد اور ایسے جملے صریح شرک ہیں اور سیرت ابراہیم علیہ السلام میں موجود توحید خالص کے منافی ہیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں شرک قرار دیا ہے اور اپنی ذات تک کے بارے میں بھی ایسے جملے کہنے کی اجازت نہیں دی، مسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے:
(أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللهُ، وَشِئْتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلْتَنِي وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ ) [1]
ترجمہ: ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا آپ نے مجھے اللہ کے برابر کرلیا ہے بلکہ تم کہو: جو صرف اللہ چاہے۔
[1] ) مسند احمد، حدیث: 4/1 21، 247، 244، 282