کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 29
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں (فانی اور حادث)کو اپنا رب نہیں مانتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک دمک رہا ہے تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے، لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں گمراہی سے بچ نہیں سکتا‘‘ پھر جب آفتاب کو مہتاب پایا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے، کیونکہ یہ تو سب سے بڑا ہے، مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے میری قوم: بلاشبہ میں ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو، بیزار ہوں، میں اپنا رخ اس کی ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا یکسو ہوکر اور میرا مشرقین سے کوئی سروکار نہیں ‘‘ پس قوم نے آپ علیہ ا لسلام سے جھگڑا شروع کردیا، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے تو مجھے ہدایت دی ہے۔ میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو ضرور ہو سکتا ہے، میرا رب ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم سبق حاصل نہیں کرتے؟میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنا رکھا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کےساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے پھر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، اگر کوئی سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو بتاؤ کہ امن کا مستحق کون ہے ان دو جماعتوں (آپ اور مجھ) میں سے؟‘‘ یہ تھی واضح دلیل اور حجت قاطعہ جس پر قوم لاجواب ہوگئی مگر عقل کے ناخن نہ لیے، بلکہ بغض وعناد کا رخ اختیار کیا لیکن مومن باطل کے عناد کی پرواہ نہیں کرتا وہ تو اپنا مشن جاری و ساری رکھتا ہے، بہار ہو یا خزاں، وو تو گلشنِ توحید کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔