کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 27
( لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا) ] سورہ فرقان :3 [ یعنی:’’انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں، اپنے نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں ہیں، نہ ہی موت و حیات اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کی ملکیت رکھتے ہیں۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ( أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ ) ] سورہ اعراف :192، 191 [ یعنی: ’’کیا یہ لوگ ان لوگوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ نہ ہی انکی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘ ………………………. اجرام فلکی پر ایک نظر اور مشرکانہ عقائد کا بطلان مشرک عقل کا اندھا ہوتا ہے، اسی لئے وہ کئی خداؤں کا بندہ ہوتا ہے، ابراہیم علیہ السلام کی قوم جہاں نمرود کو خدا مانتی تھی وہاں بتوں کی پجاری بھی تھی، یہیں پر بس نہیں بلکہ سورج، چاند، تاروں کی پوجا بھی کرتی تھی، وہ لوگ ان کی تاثیر کے قائل تھے اور انہیں نفع ونقصان کا مالک سمجھتے تھے ۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خداداد بصیرت کے تحت تبلیغ کے لیے عقلی دلائل کی حکمتوں کا اصول اپنایا اور حجتِ قاطعہ کے ساتھ ان فلکی خداؤں کی تردید کرکے قوم کو لاجواب کیا۔ [1]
[1] اد رہے کہ یہ قوم سے تبلیغ کے ابتدائی لمحات کی باتیں ہیں، بعض نے لکھا ہے کہ جب نمرود نے بچے قتل کرنے کا سلسلہ جاری کیا تا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوکر اس کی جھوٹی خدائ ختم نہ کر دیں، اسی مدت میں آپ علیہ السلام پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام کی پرورش ایک خفیہ غار میں کی گئی، وہاں ہوش سنبھالتے ہی اجرام فلکی کی عبودیت کا رد کیا تھا، مگر یہ بات مستند نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کے الفاظ صراحت کر رہے ہیں یہ اپنی قوم سے مکالمہ کر رہے ہیں قوم کو سمجھا رہے ہیں مثلا: ( وحاجہ قومہ……)اور (تلک حجتنا آتینا ابراہیم علی قومہ)اور بعض نے تو اس واقعہ کو اتنا متاثر کردیا ہے کہ آپ علیہ السلام جب باپ سمیت حرن کی طرف ہجرت کر گئے تھے، نمرود تباہ ہوگیا تھا، اور وہاں اہل حرن اور باپ کو تبلیغ کرتے ہوئے یہ مظاہرہ فرمایامگر اس کی بھی کوئی سند نہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا انکار کرکے نمرود تو عذاب میں غارت ہو جائے اور آزر، جو نمرود سے بڑا دشمن تھا خود چتا جلانے والا اور جلاوطن کرنےوالا، وہیں عذاب میں غرق ہونے کی بجائے اس بیٹے کے ساتھ ہجرت کرے بلکہ قرآن کے صریح الفاظ ہیں کہ ( اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰي رَبّيِ)یعنی آپ علیہ السلام نے قوم اور باپ دونوں کو خیرباد فرمایا، صرف ایمان لانے والوں کو ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔