کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 26
مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم ایمان نہیں لائے؟ کہا: کیوں نہیں، لیکن تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے، اللہ نے فرمایا: چار پرندے لو، [2]ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ آپ کی طرف دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔‘‘ عمل: عقیدے کی بات مارنا اور زندہ کرنا بھی رب کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ موت و حیات کا اختیار اللہ کے پاس مانا جائے، کسی بزرگ کی ناراضگی کو جانی نقصان کا سبب نہ سمجھا جائے، اسی طرح کی قیامت کے دن زندہ ہونے کا عقیدہ بھی رکھا جائے، مشرک لوگ بزرگوں کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ناراض ہوگئے تو اولاد مر جائے گی، وہ نہ دیں گے تو بیٹا نہ ملے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بار بار ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ موت و حیات پر قادر نہیں ہیں ۔ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ
[1] ) یہاں بعض لوگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ایمان حیات بعد از ممات پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن انبیاء کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کو اگر سمجھ لیں تو اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ وہ تو ایمان بالغیب کی منازل پہلے ہی سے طے کرچکے ہوتے ہیں، اور پھر ایمان بلشہادت کی نعمت سے مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ انہیں دنیا کے سامنے پورے زور کے ساتھ یہ کہنا ہوتا ہے کہ تم سیاسی گھوڑے دوڑاتے ہو اور ہم آنکھوں دیکھے مظاہر کی بات کرتے ہیں (ملحض تفہیم القرآن :جلد دوم، تفسیر کذالک نری ابرہیم ملکوت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) [2] ( ۔ ان پرندوں کی تعین کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نامزد نہیں کیا لہٰذا تعین کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی چار پرندے تھے (تفسیر صلاح الدین یوسف :مذکورہ آیات )