کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 23
میں ہی اپنی اور اپنے دین و اعتقاد کی عافیت سمجھی، چونکہ باپ کے لیے بڑے خیرخواہ، نرم دل اور داعی الی اللہ کی صفات سے آراستہ و پیراستہ تھے، بایں وجہ جاتے ہوئے بھی کسی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرنے اور تندوتیز جملے کسنے کی بجائے اس کے لئے امن و سلامتی کی دعا کی اور فرمایا : ( سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا۔ وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ) ] سورہ مریم :47، 48 [ یعنی :’’اللہ آپ کو سلامت رکھے، میں اپنے رب سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وہ تو مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔ اور میں تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو سب سے بیزار ہوں، صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور پر امید ہوں کہ اس کو پکار کر میں محروم نہ رہوں گا۔‘‘ فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے عمل: عقیدے کی بات ان الفاظ پر ذرا غور کریں کہ آپ علیہ السلام اپنے والد کی ہدایت کے لئے کس قدر بے تاب ہیں؟ کیا آپ کے دل میں زبردست تڑپ نہ تھی کہ باپ دوزخ کی آگ سے بچ جائے، مگر ہدایت دینا دین پرچلانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا، آپ علیہ السلام کے اختیار میں ہوتا تو سب سے پہلے آپ علیہ السلام کا باپ سب سے بڑا موحد ہوتا۔ لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ نبی ولی بھی کسی کو ہدایت دینے کے اختیار نہیں رکھتے۔ آپ ابھی ابھی پڑھ آئے ہیں کہ نوح علیہ السلام نے کنعان بیٹے کی خاطر کتنی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کی صف میں شریک ہوجائے مگر نہ ہوسکا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے لیے کوشش اس کی زندگی کی آخری دم تک کی مگر وہ