کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 22
یعنی : ’’دنیاوی معاملات میں اچھے طریقے سے ان کا ساتھ دو‘‘
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کافر تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ [1]
باپ کا تلخ رویہ اور جلاوطنی
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے باپ کے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت شفقت و محبت اور پیار و الفت کے لہجے میں وعظ سنایا، لیکن توحید کا یہ سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں کیوں نہ ہو، مشرک کے لیے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے، آزرکو نمرود (جو کہ کنعان بن کوش کابیٹا تھا)کے دربار میں اپنی جاہ وحشمت، مقام و مذہب کا لحاظ بھی تھا اور اپنی معاش سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف و اندیشہ بھی، بالخصوص اپنے دین کی اندھی عقیدت کی وجہ سے توحید کی پہلی آواز نہایت عجیب لگی، اسی تعصب و ہٹ دھرمی کی بناء پر آزر نہ تو بیٹے کے اندر خدادا صلاحیتوں کو اور نہ ہی اس کے حیات آفریں پیغام کو سمجھ سکا، چنانچہ حد درجہ نرمی و شائستگی اور ملامت کے باوجود ظالم باپ کی آنکھیں شعلہ جوالہ بن گئیں اور نتھنے پھول گئے، دھاڑتے ہوئے وہی کچھ کہا جو ایک ظالم باپ بالآخر کہہ سکتا ہے، کہنے لگا :
( قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ) ] سورہ مریم :46 [
یعنی : ’’اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے، اگر باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا، میری نظروں سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جاؤ۔‘‘
چنانچہ یہ گھر سے نکل جانے کا حکم تھا لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکل جانے
[1] ) صحيح بخاري :كتاب الادب، باب صلة الوالد المشرك، حديث : 5978، صحيح مسلم : كتاب الزكا ة، باب فضل النفقة والصد قة علي الا قر بين، حديث : 1003