کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 21
یعنی:”اے میرے بابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچاتے ہیں، اے ابو جان! میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، لہٰذا آپ میری بات مان لیں، میں آپ کو بالکل سیدھی راہ کی طرف رہبری کروں گا۔ ابو جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آ جائیں شیطان تو اللہ رحمان کا بڑا ہی نا فرمان ہے۔ اے میرے ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہٰی نہ آ پڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔‘‘ یہ ہیں ابراہیم علیہ السلام کے جنہوں نے تبلیغ کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ مگر تعجب ہے ان مبلغین پر جو زندگی بھر دوسرے علاقوں میں تبلیغ کرتے رہتے ہیں، مگر اپنے گھر کی دینی لحاظ سے بے راہ روی اور اخلاقی زبوں حالی پر توجہ نہیں دیتے، ان کے بہن بھائی والدین جوں کے توں بے علم، گمراہ اور فرائضِ اسلام کے تارک ہی رہتے ہیں، نیز وضع قطع میں اسلامی تہذیب سے دستبردار ہوکر رہ جاتے ہیں، جبکہ ادھر اس حضرت صاحب کا پورے ملک میں تبلیغ کا طوطی بولتا ہے اور اگرکبھی توجہ دلائی جائے تو کہتے ہیں: بھئی کیا کریں، بزرگ ہیں، مانتے کچھ نہیں، بڑا بھائی ہے کیسے سمجھاؤں؟۔ ان سے پوچھیے : کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جس باپ سے واسطہ پڑا، کیا وہ اپنی دنیاوی جاہ و وحشت میں کم تھا؟ مگر آپ علیہ السلام نے ہر ممکن کوشش کی کہ باپ ہدایت پا جائے۔ داعی ومبلغ کے لئے سیرت ابراہیم علیہ السلام کا عملی پہلو عمل: اگرچہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں، دین کے معاملے میں تو اتباع نہ کی جائے، مگر دنیاوی معاملات میں پھر بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ( وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ) ] سورہ لقمان:15 [