کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 14
سیدناابراہیم علیہ السلام وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں، کہ جن کے بارے میں قرآنِ کریم سے خلیل اللہ، معمار بیت اللہ، پدر ذبیح اللہ، جدل انبیاء، پیشوا، صدیقا نبیا، مہمان نواز، صاحبِ گلزار، ترجمانِ توحید باری تعالیٰ اور حلیم و کریم جیسے القاب عِالیہ مترشح ہوتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انکی جا ئےقیام کو جائے نماز، اندازِ توحید کو کلمہِ باقیہ اور مشرک قوم سے براءت کو اسوہ حسنہ بنایا ہے۔
اسی لیے اللہ مالک الملک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم فرماتے ہیں۔
( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا ) ] سورہ مریم :41 [
یعنی :’’ کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ بھی فرمالیا کرو کیونکہ وہ سچے نبی تھے۔‘‘
الغرض بات صرف تذکرہ و واقعہ پرہی مو قوف نہیں، بلکہ فرمایا۔
(ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفا) ( سورہ نحل :123 [
یعنی’’ ہم نے آپ کی طرف یہ بات وحی کی ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کے دینِ حنیف کی پیروی کریں۔‘‘
مزید فرمایا:
(فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) ] سورہ آل عمران :95 [
گویا ملتِ ابراہیم علیہ السلام ہی ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہے اور آپ علیہ السلام کی شریعت وسیرت ہمارا شعار ہے اسی لیے ارشاد فرمایا:
( وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ) ] سورہ بقرہ :130 [
یعنی’’ اس ملت وودین سے انحراف محض بیوقوفی و حما قت ہے۔‘‘
مذکورہ بالا سطور سے بجا طور پر لازم ہے کہ آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو شرعی حیثیت یےدیکھا اور سمجھا جائے اور اس سے مستنبط مسائل کو عملی جامہ پہنا یا جائے، اسی لیے ہم نے ’’سیرت ابراہیم علیہ السلام عمل کے آئینے میں ‘‘ کے عنوان پر قلم اٹھا کر مبلغینِ