کتاب: سیرۃ ابراہیم عمل کے آئینے میں - صفحہ 11
رختِ دل
سیدنا ابراہیم علیہ السلام تین چوتھائی دنیا کے مذہبی پیشوا ہیں، ہر کوئی انہیں اپنا امام مانتا ہے اور خود ان کی طرف منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے، یہ ابدیت و سرمدیت آپ علیہ السلام کو کیسے ملی ؟اس ہمہ گیریت وجا ودانیت کے اسباب کیا ہیں ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہی وہ راز اور معمہ ہے جس کی بنا پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اتباع ملت ابراہیمی علیہ السلام کا حکم دیا گیا، صرف مولائے کریم کی خلت کا فخر ہی نصیب نہیں ہوابلکہ قیامت کے دروبام تک آنے والے ہر نیک شخص کی امامت کا اعزاز بھی ملا۔
صدیاں بیت چکی ہے لیکن ان کا تذکارِ جلیل ماند نہیں پڑا، زمانہ خواہ کتنا ہی آگے بڑھ جائے ان کو بھلایا نہیں جاسکتا،
طویل داستان سرائی سے بچتے ہوئے اگر کہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب اخلاص اور خدا سپردگی کی برکتیں ہیں ۔
( أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ) ] آل عمران :195 [
یعنی : ’’میں کسی کاعمل بھی رایئگاں نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘‘
ضرورت تھی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے ایک ایک پہلو کو واضح کیا جاتا اور ایک ایک گوشہ سے پردہ اٹھایا جاتا۔ پھر چونکہ ہمارا دین دراصل ملت ابراہیمی علیہ السلام ہی کا تتمہ اور تکملہ ہے تو اس زاویہ سے بھی کام کا ہونا بہت ضروری تھا کہ اپنے دین کی ایک ایک اصل کو آپ علیہ السلام کی زندگی سے ڈھونڈ نکالا جاتا اور ایک ایک مسئلہ کو فقہی انداز میں مرتب کر دیاجاتا مگر افسوس کے دیگر بہت ساری حقیقتوں کی طرح یہ حقیقت بھی ہماری آنکھ سے اوجھل رہی۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس نوع کی کوئی کوشش مارکیٹ میں نہیں۔