کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 64
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مناقبِ عالیہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی سیرت کامل و اکمل اور لازوال و بے مثال ہوا کرتی ہے، یہ معصوم عن الخطأ نفوس قدسیہ ہوا کرتے ہیں، ادباء، خطباء، واعظین، مقررین، مصنفین اور صحافی حضرات ان کی سیرت کماحقہ اداء کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لئے کہ ان کے اقوال و افعال، حرکات و سکنات، ادائیں، وفائیں اور دعائیں، شریعت الٰہی کا عکس ہوا کرتی ہیں، اسی لئے انبیاء کی سیرت منانے کی چیز نہیں بلکہ اپنانے کی چیز ہوا کرتی ہے، لہٰذا انبیاء کی شریعت و سیرت ہی ان کے فضائل و مناقب کے لئے بس ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کی پائندگی و درخشندگی کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے: ان کا تذکرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود قرآن مجید میں تفصیل سے موجود ہے، انہیں ملت حنیفی کا تاج ملا، جس ملت کے دعویدار قیامت کے دن تک آنے والے لوگ ہیں، جنہیں جہانوں کی امامت ملی، رب کی خلت ملی، جنہیں ’’خیر البریہ‘‘ کہا گیا، جنہیں وفادار کہا گیا، جنہیں بہت سچا کہا گیا، جن کو ’’امة قانتا‘‘ کہا گیا، جن کو دنیا اور آخرت میں بھلائی کا وارث کہا گیا اور جد الانبیاء بنایا گیا، جن کا ذکر تاقیامت بنی نوع انسان میں زندہ رکھا گیا، ان کی فضیلت پر دلالت کناں چند آیات و احادیث کا مطالعہ کر لینا ضروری ہے: (وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ) (سورۃ البقرہ: آیت 124) یعنی: ’’سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو وہ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں‘‘ [1]
[1] امامت کے درجے کو درجہ نبوت سے بلند سمجھنے کا عقیدہ رکھنے والے اہل تشیع اسی آیت کریمہ کو اپنے دعویٰ پر حجت بناتے ہوئے کہتے ہیں: دیکھو! سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نبوت پہلے مل چکی تھی اور اب اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے لئے امام بنا رہے ہیں، لہٰذا امامت کا درجہ نبوت سے بھی بلند ہے۔ ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اِس آیت کریمہ سے یہ تو ثابت ہو سکتا ہے کہ نبوت اور امامت میں فرق ہے، مگر یہ ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا کہ امامت کا درجہ نبوت سے بلند ہے، دوسری بات یہ کہ بالاتفاق ہر نبی قوم کا امام بھی ہوتا ہے تو پھر ایک مطلق امام کی امامت ایک نبی سے کس طرح بلند ہو سکتی ہے۔ مزید برآں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے ان کی امامت کا منصب قیامت تک ان کی نسل میں جاری رہے گا، اس دعا کی روشنی میں بیت اللہ کے امام آپ علیہ السلام کی ذریت سے ہی ہیں تو پھر احباب، تشیع ان کے نظریات و عقائد اور ان کی امامت سے موافقت کیوں نہیں کرتے؟