کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 30
اجرام فلکی پر ایک نظر اور مشرکانہ عقائد کا بطلان مشرک عقل کا اندھا ہوتا ہے، اسی لئے وہ کئی خداؤں کا بندہ ہوتا ہے، ابراہیم علیہ السلام کی قوم جہاں نمرود کو خدا مانتی تھی وہاں بتوں کی پجاری بھی تھی، یہیں پہ بس نہیں بلکہ سورج، چاند، تاروں کی پوجا بھی کرتی تھی، وہ لوگ ان کی تاثیر کے قائل تھے اور انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھتے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خداداد بصیرت کے تحت تبلیغ کے لئے عقلی دلائل کی حکمتوں کا اصول اپنایا اور حجتِ قاطعہ کے ساتھ ان فلکی خداؤں کی تردید کر کے قوم کو لاجواب کیا۔ [1] قرآن حکیم نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے: (فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ
[1] یاد رہے کہ یہ قوم سے تبلیغ کے ابتدائی لمحات کی باتیں ہیں، بعض نے لکھا ہے کہ جب نمرود نے بچے قتل کرنے کا سلسلہ جاری کیا تاکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہو کر اس کی جھوٹی خدائی ختم نہ کر دیں، اسی مدت میں آپ علیہ السلام پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام کی پرورش ایک خفیہ غار میں کی گئی، وہاں ہوش سنبھالتے ہی اجرام فلکی کی عبودیت کا رد کیا تھا، مگر یہ بات مستند نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کے الفاظ صراحت کر رہے ہیں کہ یہ اپنی قوم سے مکالمہ کر رہے ہیں قوم کو سمجھا رہے ہیں مثلاً: (وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ) اور (وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ) اور بعض نے تو اس واقعہ کو اتنا متاخر کر دیا ہے کہ آپ علیہ السلام جب باپ سمیت اہل حران کی طرف ہجرت کر گئے تھے، نمرود تباہ ہو گیا تھا، اور وہاں اہل حران اور باپ کو تبلیغ کرتے ہوئے یہ مظاہرہ فرمایا مگر اس کی کوئی سند نہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا انکار کر کے نمرود تو عذاب میں غارت ہو جائے اور آزر، جو نمرود سے بڑا دشمن تھا خود چتا جلانے والا اور جلا وطن کرنے والا، وہیں عذاب میں غرق ہونے کی بجائے اسی بیٹے کے ساتھ ہجرت کرے بلکہ قرآن کے صریح الفاظ ہیں کہ (إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي) یعنی آپ علیہ السلام نے قوم اور باپ دونوں کو خیرباد فرمایا، صرف ایمان لانے والوں کو ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔