کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 17
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں، اللہ نے آپ کا نام لیا ہے تو ابی بن کعب زاروقطار رونے لگ گئے۔ [1] سیدنا ابراہیم علیہ السلام وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں، کہ جن کے بارے میں قرآن کریم سے خلیل اللہ، معمار بیت اللہ، پدر ذبیح اللہ، جد الانبیاء، مقتداء و پیشوا، صدیقا نبیا، مہمان نواز، صاحب گلزار، ترجمانِ توحید باری تعالیٰ اور حلیم وکریم جیسے القابِ عالیہ مترشح ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جائے قیام کو جائے نماز، اندازِ توحید کو کلمہِ باقیہ اور مشرک قوم سے براءت کو اسوہ حسنہ بنایا ہے۔ اسی لیے اللہ مالک الملک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حکما فرماتے ہیں: (إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾) (سورہ مریم: 41) یعنی: ’’کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ بھی فرما لیا کرو کیونکہ وہ سچے نبی تھے۔‘‘ الغرض بات صرف تذکرہ و واقعہ پر ہی موقوف نہیں، بلکہ فرمایا: (ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ) (سورۃ النحل: 123) یعنی: ’’ہم نے آپ کی طرف یہ بات وحی کی ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کے دینِ حنیف کی پیروی کریں۔‘‘ مزید فرمایا:(فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٥﴾)(سورۃ آل عمران: 95) گویا ملتِ ابراہیم علیہ السلام ہی ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہے اور آپ علیہ السلام کی شریعت و سیرت ہمارا شعار ہے اسی لیے ارشاد فرمایا: (وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ) (سورۃ البقرہ: 130)
[1] صحیح بخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب مناقب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حدیث: 3809، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل ابی بن کعب رضی اللہ عنہ و جماعۃ من الانصار، حدیث: 799)