کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 158
ہے کہ جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ دیتا ہے اور جب اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے‘‘۔
2۔ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ) (سورۃ البقرۃ: آیت 153)
یعنی: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعاون حاصل کرو‘‘۔
اب صبر و صلوٰۃ، دونوں اعمالِ صالحہ ہیں، ایک باطنی عمل ہے اور دوسرا ظاہری عمل ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث کہ تین مسافر ایک غار کے اندر داخل ہوئے، غار کا منہ ایک چٹان کے گرنے سے بند ہو گیا، تو تینوں نے اپنے ایک ایک بہت بڑے نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت سے نجات کی دعا کی تو چٹان خود بخود ہٹ گئی اور غار کا منہ کھل گیا۔ [1]
3۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی دعا کا وسیلہ بھی جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴿٦٤﴾) (سورۃ النساء: آیت 64)
یعنی: ’’اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھنے کے بعد آپ کے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے‘‘۔ [2]
[1] صحيح بخاري: كتاب الاجاره، بَابُ مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَتَرَكَ أَجْرَهُ، فَعَمِلَ فِيهِ الْمُسْتَأْجِرُ فَزَادَ،حديث: 2272، كتاب البيوع، بَابُ إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا لِغَيْرِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَرَضِيَ، حديث: 2215
[2] بعض کج فکر لوگ اس آیتِ کریمہ کو دلیل بنا کر یہ ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ جائز ہے، حالانکہ آیت کا ترجمہ اور مفہوم بالکل واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروانا جائز ہے، علمی اصطلاح میں اسے ’’توسل بالدعاء‘‘ کہتے ہیں اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، ذات کے وسیلے کا بھلا یہاں تذکرہ ہی کہاں ہے؟ اور اب جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ پکڑنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ زندہ اور ہر جگہ حاضر بھی مانتے ہیں، ہم ان حضرات کی جناب میں پورے ادب و احترام کے ساتھ عرض کناں ہیں کہ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو پھر مسئلہ ہی حل ہے، ان کی صحبت اقدس میں پہنچ کر دعا کرنے کو کہا جائے۔ مگر حضرت! سب سے پہلے کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ اور حاضر ہیں تو آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس وقت دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن الفاظ کے ساتھ اس کے حق میں دعا فرمائی؟ یہ عقدہ اگر حل ہو جائے تو ہم اگلا سوال کریں کہ آخر اس تکلیف کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر کون و مکاں میں حاضر اور موجود ہیں، اگر آیتِ مذکورہ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے تو اگلی آیت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی مراد ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ) (سورۃ النساء: آیت 65)
یعنی: ’’(اے محمد!) تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن ہی نہیں رہ سکتے جب تک اپنے اختلافی معاملات میں آپ کو فیصل نہ مان لیں‘‘۔
ہمارا سوال ہے کہ امت میں اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے اور اختلاف و افتراق کے طوفان میں امت کی کیوں نہ یاوری کی جائے؟ کہ ایک وقت تشکیل کیا جائے اور اختلافی مسائل کا حل یکبارگی ہی کر لیا جائے تاکہ امت تفرقہ سے بچ جائے، اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت کریمہ سے مراد ذات نہیں، بات ہے۔
مسئلہ بالکل عیاں ہے کہ پہلی آیتِ کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کا وسیلہ اور دوسری آیتِ کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات (حدیث مبارکہ) کے ذریعے اختلافی مسائل کا حل نکالنا ہے۔