کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 14
’’سب کچھ جو ہو رہا ہے اگر ایک ذرہ اخلاص و صداقت بھی رکھتا ہے تو پھر نہ خوف زیاں ہے اور نہ خدشہ ضیاع اور ان شاءاللہ ’’ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‘‘ کا معاملہ ارباب عمل کے لیے ہر وادی اور ہر گوشہ کار میں کارفرما ہے۔ شاہان عالم کے بنائے ہوئے محل مٹ گئے اور قوموں کے آباد کیے ہوئے شہر ویراں ہو گئے۔ (كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا) لیکن اصحابِ اخلاص کا ایک کلمہِ حق اور ایک نقشِ صدق بھی لوح عالم سے محو نہ ہو سکا، حتیٰ کہ جو بقائے ذکر عظیم الشان بابل کے آباد کرنے والوں اور مصر کے سربکف مناروں کے بنانے والوں کو بھی نصیب نہ ہوا (حالانکہ شاید اسی غرض سے جبل مقطم کی چٹانیں کاٹ کر چار سو ساٹھ گز کی بلندی تک پہنچا دیں) وہ اصحابِ کہف کے ایک بے زباں کتے کو اس غیرفانی کتاب کی لوح محفوظ میں حاصل ہے جس کی دائمی حفاظت کی تصدیق میں خود اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری پیش کی ہے (وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ)‘‘ ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما ضرورت تھی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے ایک ایک پہلو کو واضح کیا جاتا اور ایک ایک گوشہ سے پردہ اٹھایا جاتا۔ پھر چونکہ ہمارا دین دراصل ملت ابراہیمی علیہ السلام ہی کا تتمہ اور تکملہ ہے تو اس زاویہ سے بھی کام کا ہونا بہت ضروری تھا کہ اپنے دین کی ایک ایک اصل کو آپ علیہ السلام کی زندگی سے ڈھونڈھ نکالا جاتا اور ایک ایک مسئلہ کو فقہی انداز میں مرتب کر دیا جاتا مگر افسوس کہ دیگر بہت ساری حقیقتوں کی طرح یہ حقیقت بھی ہماری آنکھ سے اوجھل رہی۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس نوع کی کوئی کوشش مارکیٹ میں نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ڈھب پر کسی نے راہوار فکر کو ڈالا ہی نہیں بلا مبالغہ یہ اولیت ہمارے برادر اور رفیق کار فاضل بھائی شیخ آصف عباس صاحب کو ہے موصوف بہت ساری خوبیوں سے آراستہ اور اس معصیت زدہ دور میں اسلاف کی یاد ہیں۔