کتاب: سیرت ابراہیم علیہ السلام اور اُس کے تقاضے - صفحہ 13
رختِ دل سیدنا ابراہیم علیہ السلام تین چوتھائی دنیا کے مذہبی پیشوا ہیں، ہر کوئی انہیں اپنا امام مانتا ہے اور خود ان کی طرف منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے، یہ ابدیت و سرمدیت آپ علیہ السلام کو کیسے ملی؟ اس ہمہ گیریت و جاودانیت کے اسباب کیا ہیں؟ حالانکہ ایک وقت تھا کہ آپ علیہ السلام کو ماننے والوں میں سے صرف آپ علیہ السلام کے برادر زادے سیدنا لوط علیہ السلام کے علاوہ کسی کا نام نہیں ملتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢٦﴾)(سورۃ عنکبوت: 26) یعنی: ’’آپ علیہ السلام پر صرف لوط علیہ السلام ہی ایمان لائے اور آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں وہ بڑا ہی غالب اور حکیم ہے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی وہ راز اور معمہ ہے جس کی بناء پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اتباع ملت ابراہیمی علیہ السلام کا حکم دیا گیا، صرف مولائے کریم کی خلت کا فخر ہی نصیب نہیں ہوا بلکہ قیامت کے دروبام تک آنے والے ہر نیک شخص کی امامت کا اعزاز بھی ملا۔ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کا تذکارِ جلیل ماند نہیں پڑا، زمانہ خواہ کتنا ہی آگے بڑھ جائے ان کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ طویل داستان سرائی سے بچتے ہوئے اگر کہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب اخلاص اور خدا سپردگی کی برکتیں ہیں۔ (أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ) (آل عمران: 195) یعنی ’’میں کسی کا عمل بھی رائیگاں نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘‘ باالفاظ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ