کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 88
حدیثوں میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، رحم و کرم اور لاڈپیار کا تذکرہ ہے، ان میں مسلمانوں کے لیے نبوی رہنمائی ہے کہ کس طرح وہ بچوں کو تربیت دیں اور پروان چڑھائیں، ان میں اس اہم سوال کا جواب ہے کہ ہم بچوں کے جذبات کی تشکیل کس طرح کریں ؟ ہم ان کے حقوق کس طرح ادا کریں کہ وہ مستقبل کے اچھے آدمی بن سکیں ؟ ان احادیث نبویہ میں بہت ساری ایسی بنیادی باتوں کی جانب اشارہ ہے کہ جن کو اپنا کر ہم راہ راست اور روشن شاہرہ پر چل سکتے ہیں۔ ا:… مہربانی پرمشتمل پہلی بنیاد: بچوں کو بوسہ دینا، ان کے ساتھ شفقت و رحمت سے پیش آنا: بچوں کے جذبات و احسانات کو بیدار کرنے او ر ان کی ناراضی اور غصے کو ختم کرنے میں بوسے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بوسہ بڑوں اور بچوں کے مابین محبت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں اپنے گہرے ربط کا احساس دلاتا ہے۔ بوسہ چھوٹے بچے کے ساتھ دلی لگاؤ اور چھوٹوں پر بڑوں کی شفقت کی دلیل ہوتا ہے، وہ ایسی چمکدار روشنی ہے جو بچے کے دل کو منور کرتی ہے، اس کے نفس کو تازگی دیتی ہے اس کے اردگرد موجود لوگوں سے اس کی انسیت میں اضافہ کردیتی ہے، پھر بوسہ ہرحال میں بچوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ رہا ہے۔[1] بچوں کے ساتھ رحمت اور ان پر شفقت نبوی صفات میں سے، کا راستہ نیز رضائے الٰہی کے حصول کا سبب ہے۔ ب:… دوسری بنیاد: بچوں کے ساتھ لاڈپیار کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا کھیلنا: مذکورہ باتوں سے متعلق ہم نے چند حدیثوں کو ذکر کیاہے، ان میں بچوں کے ساتھ لاڈ پیار سے متعلق نبوی طریقہ کے سبق آموز پہلو موجود ہیں، کبھی انھیں اٹھا کر، کبھی انھیں ہنسا کر وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی، چنانچہ اپنے بچوں سے لاڈ پیار کیا، انھیں ہنسایا، انھی کی طرح بچہ بن کر ان کے ساتھ کھیلے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((یَنْبَغِیْ لِلرَّجُلِ أَنْ یَکُوْنَ فِیْ أَہْلِہِ کَالصَّبِیِّ۔)) ’’آدمی کو اپنے اہل و عیال میں بچے کی طرح رہنا چاہے۔‘‘ یعنی اپنے بچوں کے ساتھ لاڈپیار کرتے، ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے، ہشاش بشاش اور مانوس رکھنے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو کھیلاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ اسی لاڈپیار اور کھیل کود سے پیش آتے، ان میں یہ جذبہ صادق پیدا کرتے، ان پر ظلم و زیادتی، سختی اور ان کو حقوق سے محروم کرنے سے بہت دور رہتے۔[2]
[1] منہج التربیۃ الاسلامیۃ للطفل ( ص ۱۷۹) [2] منہج التربیۃ النبویۃ (ص ۱۸۴)