کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 87
((نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُکُمَا وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ أَنْتُمَا۔)) [1] ’’تمھارا اونٹ کیا ہی اچھا ہے، اور تم دونوں کیا ہی اچھے سوار ہو۔‘‘ ۱۵۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، جب آپ حالت سجدہ میں ہوتے تو حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے، جب آپ سر اٹھاتے، انھیں زمین پر اتار دیتے، جب آپ پھر سجدہ کرتے تو وہ دونوں پھر چڑھ جاتے، یہاں تک کہ آپ اپنی نماز پوری کر لیتے۔[2] ۱۶۔ابن بریدہ اپنے والد بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیص پہنے آ رہے تھے اور لڑکھڑا رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے، دونوں کو اٹھا لیا اور فرمایا: اللہ نے سچ فرمایا ہے: (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ) (التغابن: ۱۵) ’’بلاشبہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد آزمائش کی چیز ہیں۔‘‘ میں نے ان دونوں بچوں کو آتے اور لڑکھڑاتے دیکھا تو صبر نہ کرسکا، اپنی گفتگو کو روک دیا، ان دونوں کو اٹھا لیا۔[3] ۱۷۔ حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں دن کے ایک حصے میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکلا، ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار بنو قینقاع پہنچ کر لوٹ پڑے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے، پوچھا: کیا یہاں ننھا بچہ ہے؟ کیا یہاں ننھا بچہ ہے؟ آپ کی مراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے تھی، ہمارا خیال ہے کہ ان کی والدہ نے انھیں نہلانے اور خوشبوؤں کا ہار پہنانے کے لیے روک رکھا تھا، تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے، اور دونوں ایک دوسرے سے چمٹ گئے۔[4] ۱۹۔سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ کے سرخ خچر پر تھے، میں ان کے آگے آگے چلتا رہا، یہاں تک کہ میں نے انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے میں پہنچا دیا، یہ آپ کے آگے او ریہ آپ کے پیچھے تھے۔[5] اس سرچشمۂ ہدایت سے بچوں کے والد بچوں کے ساتھ محبت، ان پر لطف و کرم اور شفقت کوسیکھیں، ان
[1] الشریعۃ للآجری (۵؍۲۱۶) اس کی سند ضعیف ہے،اس میں مسروح راوی ہے۔ المجروحین (۳؍۱۹) ۔ المیزان (۴؍۹۷) [2] الشریعۃ للآجری (۵؍۲۱۶۱)۔ اس کی سند ضعیف ہے، اس میں محمد بن عیسیٰ بن حیان المدائنی راوی ہے۔ [3] الشریعۃ للآجری (۵؍۲۱۶۲) [4] صحیح مسلم (۴؍۱۸۸۲، ۱۸۸۳) [5] صحیح مسلم (رقم ۲۴۲۳)