کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 49
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شادی سے متعلق بہت سارے قصے مروی ہیں جن کی سندوں میں بے حد ضعف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ۱۔ ہذلی، ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: ہند بنت سہیل بن عمرو[1] عبدالرحمن بن عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں، وہ ان کے پہلے شوہر تھے، انھوں نے ان کو طلاق دی، ان کے بعد عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ نے شادی کی پھر طلاق دے دی، اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جاکر ان کو یزید بن معاویہ سے شادی کا پیغام دے دو۔ اسی اثناء میں ان سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملاقات ہوئی تو پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ فرمایا: میں ہند بنت سہیل بن عمرو کو یزید بن معاویہ سے شادی کا پیغام دینے جارہا ہوں۔ فرمایا: ان سے میرا تذکرہ کرنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آکر پورا معاملہ بیان کیا، تو فرمایا: میرے سلسلے میں تمھاری کیا پسند ہے؟ کہا میں تمھارے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پسند کرتا ہوں، چنانچہ انھی سے شادی ہوگئی۔ عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: میری ایک امانت ان کے پاس ہے، چنانچہ وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے پاس گئے۔ وہ ان کے سامنے بیٹھ گئیں، تو ابن عامر دل گرفتہ ہوگئے، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمھارے حق میں ان سے دستبردار نہ ہو جاؤں۔ میری رائے میں تم دونوں کے لیے دوبارہ شادی کو حلال کرنے والا مجھ سے بہتر تم نہ پاؤ گے۔[2] انھوں نے کہا: میری امانت کہاں ہے؟ چنانچہ انھوں نے دو صندوقچیاں نکالیں جن میں قیمتی جواہر تھے، چنانچہ انھوں نے ان کو کھولا، اور ایک میں سے ایک مٹھی لے لی، اور باقی ان کے پاس چھوڑ دیا، اس لیے وہ کہا کرتی تھیں: ان سب کے سردار حضرت حسن، ان میں سے سب سے سخی ابن عامر، اور ان میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عبدالرحمن بن عتاب تھے۔[3] اس قصے کی سند میں ہذلی ہیں، وہ اخباری اور متروک الحدیث ہیں۔ ذہبی کا قول ہے: ان کے ضعف پر اجماع ہے۔[4]
[1] ہند بنت سہیل بن عمرو بن شمس، ان کے والد فتح مکہ کے سال اسلام لائے، وہ حفص بن عبد زمعہ کے پاس تھیں، ان کے بطن سے ان کے کچھ بچے پیدا ہوئے۔ پھر ان سے عبدالرحمن بن عتاب، پھر عبداللہ بن عامر،پھر حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے شادی کی، ایسا ہی ’’نسب قریش‘‘ (ص۴۲۰) میں ہے۔ [2] محلل: ایسا شخص جو کسی ایسی عورت سے شادی کرے جو اپنے پہلے شوہر کے لیے بائنہ ہو چکی ہو، اور شادی کا مقصد یہ ہو کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے، جیسا کہ حدیث ہے: ’’لعن اللہ المحلل والمحلل لہ‘‘ دیکھئے ارواء الغلیل (نمبر ۱۸۹۷) [3] الطبقات الکبری ، الطبقۃ الخامسۃ من الصحابۃ (۱؍۳۰۳) [4] دیوان المتروکین والضعفاء (ص: ۳۵۲)