کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 39
سے نفرت کرتا اور ان کے کنارے بھی نہیں جاتا ہے، دور حاضر کا یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ یورپ و امریکہ وغیرہ کے کافر ناموں کو منتخب کیا جاتا ہے، یہ بہت بڑا گناہ اور دین بیزاری کی اہم دلیل ہے جیسے پطرس، جرجس، جارج، ڈیانا وغیرہ۔ ناموں کے بارے میں کافروں کی یہ تقلید صرف خواہش نفس اور کند ذہنی کا نتیجہ ہو تو وہ گناہ کبیرہ ہے۔[1] شیخ بکر بن عبداللہ ابوزید نے اپنی کتاب ’’تسمیۃ المولود‘‘ میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جسے مزید معلومات چاہیے وہ مذکورہ کتاب کی طرف رجوع کرے۔ [2] ۳۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذان دینا: جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کانوں میں اذان دی، جیسا کہ ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔[3] اس کے فلسفہ اور حکمت کو بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: ۱۔ اذان شعائر اسلام میں سے ہے۔ ۲۔ دین اسلام کا اعلان ہے۔ ۳۔ پھر ضروری ہے کہ یہ اذان خاص کرکے مولود کے کانوں میں کہی جائے۔ ۴۔ اذان کی خاصیت ہے کہ شیطان اس سے بھاگتا ہے، اور شیطان بچے کو شروع ہی میں تکلیف پہنچاتا ہے، فرمان نبوی ہے: ((مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ إِلَّا وَالشَّیْطَانُ یَمُسُّہُ فَیَسْتَہِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّیْطَانِ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَہَا۔)) [4] ’’ہر مولود کو شیطان کچوکا لگاتا ہے ، شیطان کے اس کچوکے سے وہ زور سے چیخ پڑتا ہے، سوائے مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے کے۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے: ((إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ وَلَہُ ضُرَاطٌ حَتّٰی لَا یَسْمَعَ التَّاذِیْنَ۔)) [5]
[1] تسمیۃ المولود ، بکر بن عبداللہ ابوزید (ص ۴۷) [2] ایضًا [3] سنن ابی داود (۵۱۰۵) سند ضعیف ہے، اس میں عاصم بن عبید اللہ ہیں، ابن معین نے ان کی تضعیف کی ہے، امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ الکاشف (۲۵۳۰) [4] صحیح البخاری (۵؍۱۹۶، رقم ۴۵۴۸) حجۃ اللہ البالغۃ (۲؍۳۸۵) [5] صحیح البخاری (۱؍۱۷۰، رقم ۶۰۸)