کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 31
میں بفضلہ تعالیٰ خلفائے راشدین کی تاریخ کے سلسلے میں بتاریخ ۲۱/ صفر ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۰۰۴/۴/۱۸ء بوقت پونے دس بجے رات فارغ ہوا۔ اللہ ہی سے اس کام کی قبولیت و برکت اور انبیاء ،صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کا خواستگار ہوں۔ فرمان الٰہی ہے: مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (فاطر:۲) ’’اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے سو اس کے بعد اس کاکوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ اس کتاب کے ذریعے میں قارئین کے ہاتھوں میں خلفائے راشدین کی تاریخ کے سلسلے کی ایک کڑی رکھ رہا ہوں۔ مجھے اس میں کمال کا دعویٰ نہیں۔ شاعر کا قول ہے: و ما بہا من خطأ أو خلل أذنت فی إصلاحہ لمن فعل ’’جو کچھ اس میں خلل اور غلطی ہے اس کی اصلاح کی میں ہر شخص کو اجازت دیتا ہوں۔‘‘ لکن بشرط العلم و الانصاف فذا و ذا من أجمل الأوصاف ’’لیکن وہ اصلاح علم اور انصاف جیسے اوصاف پر مبنی ہو۔‘‘ واللّٰه یہدی سبل السلام سبحا نہ بحبلہ اعتصامی ’’ اور اللہ تعالیٰ سلامتی کی راہیں دکھا دیتا ہے، میں اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھامتا ہوں۔‘‘ اس عظیم احسان پر میں اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر گزار ہوں۔ میں اس سے اور اس کے اسماء و صفات کے حوالے سے دعاگو ہوں کہ وہ اس تاریخی سلسلے کو اپنی رضا کے لیے خالص اور اپنے بندوں کے لیے مفید بنائے، اور میرے ہر لکھے ہوئے حرف کا مجھے اجر عطا فرمائے، اور اسے میری نیکیوں کی میزان میں کردے، او ران تمام لوگوں کو اجر عطا کرے جنھوں نے اس کام کے مکمل کرنے میں اپنی حسب استطاعت وسائل سے میری مدد کی۔ قارئین کرام سے امید کرتاہوں کہ مجھ کو اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔ فرمان الٰہی ہے: