کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 30
میں آپ کے تفقہ اور عظیم اصلاحی منصوبے کا کوئی خاص اثر نہیں رہا۔ قوموں کے عروج کے اہم اسباب میں سے ہے کہ حاضر کو سدھارنے کے لیے ماضی سے آگاہ رہا جائے اور مستقبل پر نگاہ رکھی جائے۔ بلاشبہ تاریخ امت کا حافظہ، اس کے تجربات، علوم و معارف، اصول و مبادی اور کارناموں کا خزینہ ہوتی ہے، اس کے ماضی اور حال کے تشخص کی بنیاد ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی گہرائیاں ابھی تک لوگوں کے سامنے واضح نہیں ہوسکی ہیں۔ خلفائے راشدین کی ایک عظیم تابناک تاریخ رہی ہے۔ امت اسلامیہ کی تاریخ تمام قوموں اور ملکوں کی تاریخ پر فوقیت رکھتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس قدیم تابناک تاریخ سے مستفید ہوں۔ اس کے سبق آموز اور عبرت خیز، پہلوؤں کو واضح کریں، اس سے طریقہ ہائے کار کا استنباط کریں، اور اس کی روشنی میں دوسری تہذیبوں کو سمجھیں۔ تاریخی تسلسل، طریقۂ نبوی اورقرآنی قصوں کی روشنی میں امت اسلامیہ کی ایسی ترقی کے لیے منصوبہ سازی کریں جو دور حاضر سے ہم آہنگ ہو، تاکہ لوگوں کی رہنمائی میں امت اسلامیہ اپنا مثالی تہذیبی کردار ادا کرسکے اور آنے والی صدیوں میں دنیا کے سامنے یہ اچھی طرح ثابت ہوجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لایا ہوا دین اسلام نہ مٹا ہے اور نہ کبھی مٹے گا، اور قرآن کریم قیامت تک باقی رہنے والی کتاب ہدایت ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم معاملات سے متعلق اپنی نگاہوں کو کھلی رکھیں تاکہ ہمیں دیر تک رونا نہ پڑے۔ میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کروں۔ آپ کی زندگی امت کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آپ ان ائمہ میں سے ہیں جن کا طریقۂ کار، اقوال و افعال آج لوگوں کے لیے اسوہ ہیں۔ آپ کی سیرت سے دین کی صحیح سمجھ، اسلامی جذبے اور ایمان کو تقویت ملتی ہے۔آپ کی سیرت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اختلافات کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ مصالح و مفاسد اور مقاصد شریعت کیا ہیں۔ خواہشات نفس پر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔ ہمارا قرآن کریم کے ساتھ تعامل کیسا ہو۔ کس طرح ہم طریقۂ نبوی کو اختیار کریں اور آپ کی اقتداء کریں۔ آپ کے اقوال و افعال کے توسط سے ہمارے دلوں میں اللہ کی جانب جھکاؤ گہرا ہوتا ہے پتہ چلتا ہے کہ ان مذکورہ علوم کا امت کی زندگی، ترقی اور مطلوبہ تہذیبی کردار ادا کرنے میں کتنا اثر ہوتاہے۔ بنا بریں میں اپنی وسعت کے مطابق آپ کی شخصیت اور کارناموں کو اجاگر کرنے میں بھرپور کوشش کی ہے۔ غلطی اور لغزش سے بچنے کا دعویٰ نہیں، صرف اللہ کی رضا اور ثواب مطلوب ہے، وہی اسے نفع بخش بنا سکتا ہے اور اسی سے اس سلسلے میں تعاون مطلوب ہے، بلاشبہ وہ اچھے ناموں والا اور دعاؤں کا سننے والا ہے۔