کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 29
’’امت کا شیرازہ بکھر رہا تھا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہی ہیں جنھوں نے اسے بچایا۔‘‘
ترک الإمامۃ ثم أصبح فی الدیار
إمام ألفتہا و حسن عُلاہا
’’زمام حکومت کو چھوڑ دیا تو امت کے اتفاق و اتحاد اور سربلندی کے امام ہوگئے۔‘‘
کتاب میں درج ذیل موضوعات پربھی بحث کی ہے:
مصالحت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے تعلق
آپ کے آخری ایام اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے آپ کی وصیت
اللہ کی کائنات میں آپ کا غور و فکر کرنا۔
اپنے نفس کا محاسبہ، پھر آپ کی شہادت اور مدینہ کی قبرستان بقیع میں آپ کی تدفین
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت یہ بتاتی ہے کہ قائد کے مستقبل کی پلاننگ کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ اسی کی روشنی میں اللہ کے سہارے وہ آگے بڑھتا ہے، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اصلاحی پلاننگ اور منصوبے کے مالک اور اس کی تنفیذ پر قادر تھے، اور اس سلسلے کے تمام مراحل، اسباب، شروط، نتائج، رکاوٹیں، ان رکاوٹوں سے نپٹنے کے طریقے آپ کے لیے واضح تھے۔ آپ نے اختلافات سے نپٹنے، مصالح و مفاسد، مقاصد شریعت، معاملات کو حل کرنے کے لیے باہمی بات چیت، اللہ کی رضا کے لیے خواہشات نفس اور اس کی خامیوں پر قابو پانے سے متعلق بہت واضح نقوش چھوڑتے ہیں، چنانچہ عالم اسلام کے حکمران خاندان، متحرک سیاسی پارٹیاں، موجود ادارے، اسلامی تحریکات، بامقصد جمعیات کو شدید ضرورت ہے اس بات کی کہ وہ اختلافات کو ختم کرنے، اتفاق واتحاد، خونریزی سے بچاؤ، اور سب کو اکٹھا کرنے سے متعلق حصرت حسن رضی اللہ عنہ کے تفقہ اور طریقۂ کار کو سمجھیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد ہیں، ان کی اقتداء او ران کے تفقہ کی اہمیت کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی اپنے اس قول سے کی ہے:
((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِيْ۔)) [1]
’’تم میرے طریقۂ کار کو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقۂ کار کو لازم پکڑو۔‘‘
بلاشبہ حقیقت کا متلاشی اس بات پر بہت تعجب کرے گاکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تفقہ اور ان کا طریقۂ کار امت کے حافظے سے بہت حد تک اوجھل رہا۔ اسی طرح اس با ت پر بھی حیرت کرے گا کہ ہماری تہذیب و ثقافت
[1] سنن ابی داود (۴؍۲۰۱) سنن الترمذی (۵؍۴۴) حسن صحیح