کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 28
کہ کوئی اور چیز جیسا کہ بعض مورخین کا خیال ہے۔
زندگی کے مختلف تصرفات و مواقف کے توسط سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عظمت کا ظہور، ان اہم تصرفات میں سے عظیم اصلاحی منصوبہ کی پلاننگ اور اس کی تنفیذ پر بے مثال قدرت، بہت سارے لوگ اصلاحی منصوبے اور نظریات رکھتے ہیں، لیکن انھیں لوگوں کے سامنے پیش کرنے اور ان کی تنفیذ سے قاصر رہتے ہیں۔
میں نے اس کتاب میں تاریخ کی بعض جھوٹی روایتوں کا پردہ فاش کیا ہے، بطور مثال بعض مورخین کا خیال ہے کہ اموی حکومت نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں تمام منبروں کے لیے یہ تعمیم جاری کردی تھی کہ وہاں سے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے، چنانچہ میں نے صحیح دلائل و براہین سے اس بہتان کا قلع قمع کیا ہے۔ مورخین نے بلا بحث و تمحیص، اور نقد و تحلیل کے اس چیز کو تسلیم کرلیا اور متاخرین کے نزدیک یہ چیز ان مسلمات میں سے ہوگئی جن میں مناقشہ کی گنجائش نہیں رہتی، یہ ایسا دعویٰ ہے جسے صحت نقل کی ضرورت ہے، اور جس کی سند کو جرح اور متن کو اعتراض سے خالی رہنا چاہے، محققین کے نزدیک اس طرح کے دعووں میں کتنا وزن ہے ظاہر و باہر ہے۔ صحیح تاریخ تو یہ ثابت کرتی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہل بیت کا بڑا احترام تھا، اسی طرح تاریخ کی بعض کتابوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید پر تہمت لگائی ہے کہ انھوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا تھا، تو میں نے اس کی بھی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ سند اور متن دونوں اعتبار سے ثابت نہیں ہے۔
اسی طرح آپ کے مدینہ میں قیام کرنے، امت کے اتحاد کے امام اور محور اور بلا مقابل وحدت امت کے قائد ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ شاعر کا قول ہے:
فی روض فاطمۃ فما غصنان لم
ینجبہما فی النَّیِّران سواہا
’’ بطن فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی سے دونوں نونہالوں نے جنم لیا۔‘‘
فأمیر قافلۃ الجہاد و قطب دائرۃ
الوئام و الاتحاد ابناہا
’’چنانچہ ان کے دونوں بیٹے مجاہدین کے قافلہ سالار اور اتحاد واتفاق کے محور ہیں۔‘‘
حسن الذی صان الجماعۃ بعد ما
أمس تفرقہا یحلُّ عراہا