کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 24
’’حضرت حسن کے خلفائے راشدین میں سے ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو میں نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ سفینہ کے طریق سے نقل کیا ہے: ’’اَلْخِلَافَۃُ بَعْدِیْ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ‘‘ (خلافت میرے بعد تیس سال ہوگی) اور تیس سال حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر پورے ہوتے ہیں۔‘‘[1] ۴۔ ابن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: ’’آپ اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آخری خلیفہ راشد ہیں، آپ اپنے والد کے بعد اہل کوفہ کی بیعت سے خلیفہ ہوئے، اور چھ مہینہ چند دن اس حدیث کے مطابق خلیفۂ برحق اور سچے اور عادل امام رہے جس میں آپ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلْخِلَافَۃُ بَعْدِیْ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ‘‘[2] (خلافت میرے بعد تیس سال ہوگی) اور وہ چھ مہینے تیس سال کا تکملہ ہیں۔ ‘‘[3] حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلفائے راشدین میں سے ہونے کے سلسلے میں یہ بعض اہل علم کے اقوال ہیں، چنانچہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق تھی، اور وہ اس خلافت نبوت کا تکملہ تھی جس کے بارے میں آپ نے خبر دی ہے کہ اس کی مدت تیس سال ہوگی۔ [4] اس کتاب میں میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی جانب کچھ خطبے منسوب ہیں جو درست نہیں ہیں، اور بعض کتابوں کے بارے میں اہل علم کے اقوال کو ذکر کیا ہے، مثال کے طور پر ابوالفرج اصفہانی کی کتاب ’’الأغانی‘‘ اس کتاب کا شمار ان کتابوں میں ہے جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے، یہ کتاب ادب، قصے کہانیوں، گانوں اور بے حیائی کی باتوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا علم و تاریخ اور فقہ سے کوئی تعلق نہیں، اہل ادب و تاریخ کے نزدیک اس کی گونج رہی ہے۔ اصفہانی کے غیر ثقہ، ضعیف اور نقل میں متہم ہونے کے سلسلے میں اہل علم کے اقوال کو ذکر کیا ہے اور واضح دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ کتاب علم و ادب اور تاریخ میں کسی طرح مرجع نہیں بن سکتی، ہماری تاریخ کے
[1] البدایۃ والنہایۃ (۱؍۱۳۴) [2] الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ (۲؍۳۹۷) [3] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (۲؍۷۴۸) [4] عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ (۲؍۷۴۸)