کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 23
’’خلافت تیس سال رہے گی، پھر اس کے بعد بادشاہت ہوگی۔
امام ابوداؤ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے:
((خِلَافَۃُ النُّبُوَّۃِ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُؤتِی اللّٰہُ الْمُلْکَ مَنْ یَّشَائُ أَوْ مُلْکَہُ مَنْ یَّشَائُ۔))[1]
’’خلافت نبویہ تیس سال ہوگی پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا بادشاہت عطا کرے گا یا جسے چاہے گا اسے اس کا مالک بنا دے گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس سالوں میں صرف خلفائے اربعہ اور حضرت حسن کی مدت پوری ہوتی ہے، اور بہت سارے اہل علم مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت کے چند مہینے خلافت راشدہ میں شامل ہیں اور اس کو مکمل کرنے والے ہیں۔
اس سلسلے میں بعض اہل علم کے اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’تیس سالوں سے مراد چاروں خلفاء کی مدت خلافت اور وہ چند مہینے ہیں جن میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کی گئی تھی، اور حدیث کے اس ٹکڑے میں ’’الخلافۃ ثلاثون سنۃ‘‘ خلافت سے مراد خلافت نبوت ہے، جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت آتی ہے:
(( خِلَافَۃُ النُّبُوَّۃِ بَعْدِیْ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا۔))[2]
’’خلافت نبوت میرے بعد تیس سال ہوگی پھر بادشاہت ہوگی۔‘‘
۲۔ شرح الطحاویہ میں ابوالعز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت دو سال تین مہینہ رہی، عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت ساڑھے دس سال رہی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت بارہ سال رہی، حضرت علی کی خلافت چار سال نو مہینے رہی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت چھ مہینے رہی۔‘‘ [3]
۳۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے:
[1] صحیح سنن ابی داؤد (۳؍۷۷۹)، سنن ابی داؤد (۲؍۵۱۵)
[2] شرح النووی علی صحیح مسلم (۱۲؍۲۰۱)
[3] شرح الطحاویۃ (ص ۵۴۵)