کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 22
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنے والد کی شہادت کے بعد خطبہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ردعمل۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت، بیعت میں آپ کی شرط۔
آپ کی خلافت سے متعلق نصوص کا بطلان
آپ کو امت نے معروف شورائی نظام کے مطابق منتخب کیا۔
امیر المومنین حسن رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت
آپ کی خلافت سے متعلق اہل سنت کا عقیدہ
آپ کی خلافت حقیقت میں خلافت راشدہ تھی۔ آپ کی مدت حکومت خلافت راشدہ کی مدت کا تتمہ تھی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ خلافت راشدہ تیس سال رہے گی پھر بادشاہت ہو جائے گی، جیسا کہ امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْخَلَافَۃُ فِیْ أُمَّتِیْ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ مُلکٌ بَعْدَ ذٰلِکَ۔))[1]
’’میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی پھر اس کے بعد بادشاہت ہوگی۔‘‘
ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تیس سال پورے ہوجاتے ہیں، آپ ربیع الاول ۴۱ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر اس وقت تک پورے تیس سال ہوتے ہیں، آپ کی وفات ربیع الاول ۱۱ھ میں ہوئی تھی، اس طرح کی پیشین گوئی نبوت کی واضح دلیل ہے۔‘‘[2]
اس طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ پانچویں خلیفہ راشد ہیں۔[3]
امام احمد نے حدیث سفینہ کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:
((اَلْخَلَافَۃُ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ بَعْدَ ذٰلِکَ الْمُلْکُ۔))[4]
[1] سنن الترمذی مع شرحہا ، تحفۃ الاحوذی (۶؍۳۹۵، ۳۹۷) حدیث حسن ہے۔
[2] البدایۃ والنہایۃ (۱۱؍۱۳۴)
[3] مأثر الأنافۃ (۱؍۱۰۵)، مرویات خلافۃ معاویۃ ، خالد الغیث ص: ۱۵۵۔
[4] فضائل الصحابۃ (۲؍۷۴۴) اس کی اسناد حسن ہے۔