کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 107
بعض متقدمین و متاخرین علما کا قول ہے کہ انھیں زکوٰۃ دی جائے گی۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ ایسی حالت میں بنوہاشم کو زکوٰۃدینی جائز ہے، اس لیے کہ اس کا عوض خمس انھیں نہیں ملا ہے، اور جب عوض خمس انھیں نہیں ملا تو وہ معوض عنہ زکوٰۃ کی جانب لوٹ جائیں گے۔[1] بعض مالکیہ کا قول ہے کہ وہ لوگ جب بیت المال سے ملنے والے اپنے حق سے محروم کردیے گئے اور فقیر ہوگئے تو ان کے لیے زکوٰۃ لینا اور انھیں زکوٰۃ دینا جائز ہے۔[2] اس سلسلے میں ابوبکر ابہری[3] کہتے ہیں: ان کے لیے فرض اور نفلی صدقات حلال ہیں۔[4] ابوسعید اصطخری شافعی کا قول ہے: جب خمس سے ملنے والے اپنے حق سے محروم کردیے جائیں تو انھیں زکوٰۃ دینی جائز ہے، خمس کے حق کی وجہ سے ان کے لیے زکوٰۃ کی ممانعت تھی، جب وہ حق انھیں نہ ملے تو انھیں زکوٰۃ دینی واجب ہے۔[5] ایسا اس حدیث: ((إِنَّ) لَکُمْ فِيْ خُمْسِ الْخُمُسِ مَا یَکْفِیْکُمْ أَوْ یُغْنِیْکُمْ۔)) [6] ’’خمس کا پانچواں حصہ تمھارے لیے کافی ہے یا تمھیں مستغنی کردے گا۔‘‘ کی وجہ سے ہے، چنانچہ زکوٰۃ سے استغناء خمس کے پانچویں حصے کی وجہ سے ہے، جب خمس معدوم ہوگا تو استغناء بھی معدوم ہوگا، اس طرح خمس ان کے استغناء اور ان کے لیے زکوٰۃ کی ممانعت کے لیے شرط ہے، جب شرط معدوم ہوجائے گی تو زکوٰۃ کی رکاوٹ بھی معدوم ہوجائے گی۔ بعض علمائے حنابلہ کا قول ہے: ’’جب انھیں خمس نہ ملے تو ان کے لیے زکوٰۃ جائز ہوجائے گی، اس لیے کہ یہ حاجت و ضرورت کی صورتِ حال ہے۔‘‘[7] اسی کو ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے راجح قرار دیا ہے۔[8]
[1] حاشیۃ ابن عابدین (۲؍۹۱) [2] بلغۃ السالک (۱؍۲۳۲) حاشیۃ الدسوقی (۱؍۴۵۲، ۲۵۳) [3] وہ محمد بن عبداللہ بن محمد، ابوبکر تمیمی ہیں، عراق میں مالکیہ کے سردار تھے، ان کی وفات ۳۷۵ھ میں ہوئی، دیکھو شذرات الذہب (۳؍۸۵، ۸۶) [4] المنتقی للباجی (۲؍۱۵۳) [5] المجموع للنووی (۶؍۲۴۴-۲۴۶) [6] تفسیر ابن کثیر (۲؍۳۱۳) ابن کثیر کہتے ہیں اس کی سند حسن ہے۔ [7] الإنصاف للمرداوی (۳؍۲۵۵) و کشاف القناع للبہوتی (۲؍۲۹۱) [8] الاختیارات (۱۰۴) العقیدۃ فی أہل البیت (ص ۱۸۶)