کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 105
تکریم کی خاطر صدقہ ان کے لیے حرام قرار دیا اور عزت و تکریم اس لیے کہ انھوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی، ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کا حریص تھا، اس لیے اس کے بچے اس تکریم کے مستحق نہ ہوئے۔[1] بعض علمائے حنابلہ کے قول کے مطابق ان میں آل ابولہب بھی شامل ہیں، اس لیے کہ وہ لوگ بھی ہاشم کی نسل سے ہیں۔[2] اور کیوں نہ داخل ہوں، ابولہب کے دو لڑکے عتبہ اور معتب فتح مکہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے، ان کے اسلام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے، ان کے لیے دعائیں کیں، وہ دونوں آپ کے ساتھ غزوۂ حنین و طائف میں شریک ہوئے، اہل نسب کے نزدیک انھوں نے اپنے پیچھے نسل بھی چھوڑی۔ [3] ۲۔ امام شافعی کی رائے میں آل بیت بنوہاشم و بنو مطلب ہیں، ان کی مندرجہ ذیل دلیلیں ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے قرابت داروں کا حصہ بنوہاشم اور بنومطلب کو دیا، ان کے علاوہ قبائل قریش میں سے کسی کو نہیں دیا، جیساکہ امام بخاری نے جبیر بن مطعم کی حدیث نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدمطلب کو دیا اور ہمیں نظر انداز کردیا جب کہ ہم اور وہ ایک ہی مرتبے میں ہیں، جواباً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنوہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔‘‘[4] حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ بنو مطلب قرابت داروں کے حصے میں بنو ہاشم کے ساتھ شریک ہیں، اور وہ سب آل رسول ہیں، چنانچہ یہ حدیث اس بات کی دلیل بنی کہ بنومطلب بھی آل رسول میں سے ہیں، نیز یہ کہ زکوٰۃ ان کے لیے بھی حرام ہے، اور خمس کا یہ عطیہ ان پر حرام کردہ صدقہ کے عوض ہے۔ نتیجتاً زکوٰۃ کی حرمت کا حکم خمس کے مستحق ہونے کی طرح قرابت داروں سے متعلق ہوگا، اور اس حکم میں ہاشمی و مطلبی دونوں برابر ہوں گے۔ [5] بنو مطلب کے بارے میں امام احمد کے دو قول منقول ہیں: ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے باعث ان کے لیے زکوٰۃ حرام ہوگی:
[1] شرح فتح القدیر لابن الہمام (۲؍۲۷۲-۲۷۴)، المنتقی للباجی (۲؍۱۵۳)، نیل الأوطار (۴؍۱۷۲) [2] الانصاف للمرداوی (۳؍۲۵۵-۲۵۶) [3] التبیین فی أنساب القرشیین (ص ۱۴۳) [4] صحیح البخاری ، کتاب فرض الخمس ، رقم (۳۱۴۰) [5] معالم السنن للخطابی (۲؍۷۱) ، الأم للشافعی (۲؍۶۹)، المجموع للنووی (۶؍۲۴۴)، العقیدۃ فی اہل البیت ( ص ۱۸۱)