کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 104
میں سے صحیح تر قول حلال نہ ہونے کا ہے۔ آل بیت کے لیے زکوٰۃ و صدقہ حلال نہ ہونے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں واضح کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا: ((إنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْبَغِیْ لِآلِ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا ہِیَ أَوْ سَاخُ النَّاسِ۔)) [1] ’’آل محمد کے لیے صدقہ مناسب نہیں ہے، وہ تو لوگوں کی میل کچیل کو دور کرنے والی چیز ہے۔‘‘ صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں: ’’أوساخ الناس‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان کے نفوس او راموال کی میل کچیل کو پاک کرنے والی چیز ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم) (التوبۃ: ۱۰۳) ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔‘‘ گویا وہ صدقہ میل کچیل کو دھونے والی چیز ہے، یہ حدیث آل بیت کے مقام و مرتبہ کی بلندی اور ان کی طہارت و پاکیزگی کو واضح کرتی ہے۔[2] اسی لیے وہ لوگ نہ عہد نبوی میں صدقہ لیتے تھے نہ اس کے بعد ہی، وہ صرف مالِ غنیمت کے خمس میں سے اپنا حصہ لیتے تھے۔ فرمان الٰہی ہے: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَ) (الانفال:۴۱) ’’جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا۔‘‘ ’’وَ لِلرَّسُوْلِ ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کہتے ہیں: خمس کا ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قرابت داروں کو دیا جائے گا۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں آل بیت کی تعیین میں علما کے دو اقوال ہیں: ۱۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد علیہم السلام کے ایک قول کے مطابق آل بیت صرف بنوہاشم ہیں، ان میں آل علی، آل عباس، آل جعفر، آل عقیل، اور آل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں، ان میں ابولہب شامل نہیں ہے، اس لیے اس کے بچوں کو صدقہ دینا جائز ہے، ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنو ہاشم کی عزت و
[1] صحیح مسلم (رقم ۱۰۷۲) [2] شرح النووی علی صحیح مسلم (۷؍۱۸۳-۱۸۷)