کتاب: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 103
لوگ کھڑے ہوگئے، وہ نہیں کھڑے ہوئے، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تم نے کیا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہودی کی تکلیف دہ بدبو کے باعث کھڑے ہوئے تھے۔[1] ۵۔ ابوالحوراء سعدی سے مروی ہے کہتے ہیں: میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات یاد ہے؟ فرمایا: مجھے یاد ہے کہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں ڈال لی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لعاب سمیت نکال کر کھجوروں میں پھینک دیا، ایک شخص نے آپ سے کہا: اگر وہ اس کھجور کو کھا لیتے تو آپ کے لیے کوئی حرج کی بات نہ تھی توآپ نے فرمایا: ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے:کھٹکنے والی چیزوں کو چھوڑ کر نہ کھٹکنے والی چیزوں کو اختیار کرو، سچائی اطمینان بخش ہے، اورجھوٹ کھٹکنے والی چیز ہے، فرماتے ہیں: آپ ہمیں یہ دعا سکھلاتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ۔)) اور کبھی کبھی فرمایا: ((تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔)) [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آل بیت کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے،صدقہ کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ فرض صدقہ جس کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ ۲۔ نفلی صدقہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم) (التوبۃ:۱۰۳) ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں۔‘‘ مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دونوں طرح کے صدقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں تھے، فرض صدقہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں تھا، اسی طرح آپ کی آل کے لیے بھی حلال نہیں تھا، لیکن آل بیت کے لیے نفلی صدقہ کے حلال نہ ہونے میں اختلاف ہے، اس سلسلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں، دونوں
[1] مسند احمد (۳؍۱۶۷، ۱۶۹) انقطاع کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ [2] مسند احمد (۳؍۱۶۷، ۱۶۹) اس کی سند صحیح ہے، دعائے قنوت کا ترجمہ گزر چکا ہے۔