کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 99
فرق ہے کیونکہ بسااوقات حتمی شہادت اور اس کے عناصر کو پیش کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جب ظلم بالکل ننگا ہو تو قاضی کو معمولی شہادت پر بھی اکتفاء کر لیناچاہیے۔[1]
چونگی ٹیکس کا خاتمہ:
محصول چنگی کے ظلم ہونے میں کوئی شک نہیں تھا۔ کیونکہ یہ لوگوں سے لیاجانے والا ایک غیر شرعی ٹیکس تھا کیونکہ مسلمان سے زکوۃ کا، اور غیر مسلموں اور ذمیوں سے جزیہ، عشور اور خراج وغیرہ کا لیاجانا دوسرے ٹیکسوں سے کفایت کرتا ہے۔ اسی لیے آپ نے چنگی ٹیکس لینے کی ممانعت کی اور اس بابت بے حد سختی سے کام لیا۔ محمد بن قیس کی روایت ہے کہ: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلیفہ بنتے ہی ہر زمین کے چنگی ٹیکس کو مسلمان ہر سے جزیہ کو ختم کردیا۔ [2]
آپ نے عدی بن ارطاۃ کولکھا کہ: لوگوں پر سے چنگی ختم کردو۔ میری عمر کی قسم یہ چنگی نہیں بلکہ وہ بخس ہے[3] جس کا ذکر اس آیت میں آتا ہے:
{وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ہُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ} (ہود: ۸۵)
’’اور اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کر تے ہوئے دنگا نہ مچائو۔‘‘
پس جو اپنے مال کی زکوٰۃ لادیتا ہے، وہ اس سے قبول کر لو اور جو نہ لائے اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔[4]
اسی طرح آپ نے فسطین کے عامل عبداللہ بن عوف کو لکھ بھیجا: اس گھر کی طرف جائو جس کو ’’مکس‘‘ کا نام دیا ہوا ہے اور اس کو گرا دو۔ اور اس کے ملبے کو لے جاکر سمندر میں بہادو۔ [5]
چنگی دراصل اس دور میں بازاروں میں اپنا سامان فروخت کرنے والوں سے لیے جانے والے چند مخصوص دراہم تھے اور یہ دراہم باہر سے آنے وا لے سامان پر چنگی خانوں اور کسٹم ہاوسز میں جہاں سے یہ تاجر اپنا سامان لے کر گزرتے تھے، لیے جاتے تھے۔ آپ کے نزدیک یہ ٹیکس نراظلم تھا اس لیے آپ نے اس کے لینے سے منع کیا۔[6] اس بابت آپ جس آیت سے استدلال کرتے تھے اس کو ابھی اوپر کی سطروں میں ذکر کر دیا گیاہے۔
[1] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الاسلامی: ۲/۵۶۵
[2] یہاں پر لفظ مکس آتا ہے یہ شہر میں داخل ہوتے وقت سامان پر لیے جانے والے ٹیکس اور چنگی کو کہتے ہیں (القاموس الوحید، ص: ۱۵۷۳) یہ دور جاہلیت میں بازاروں میں سامان بیچنے والے سے لیے جانے والے چند مخصوص دراہم کو کہا جاتا تھا۔ یا یہ ٹیکس کانام ہے۔
[3] الطبقات الکبریٰ لابن سعد : ۵/۳۴۵
[4] الطبقات الکبری لابن سعد:۵/۳۸۳
[5] سیرۃ عمربن عبدالعزیزلابن الجوزی،ص: ۱۱۳
[6] فقہ عمربن عبدالعزیز: ۲/۵۶۱از محمد شقیر