کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 98
خود کو ہوائے نفس کے چنگل سے آزاد کر لیا ہوا تھا۔ آپ بھی دوسرے عاملوں کی طرح یہ سب کچھ کر سکتے تھے کہ لوگوں کو دھمکیاں لکھ بھیجتے ان کو موت سے ڈراتے، جس میں ذرا سرکشی دیکھتے اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تختہ دار پر لٹکوا دیتے۔ لیکن آپ نے ایسا نہ کیا، بلکہ اپنی زندگی کو مظالم کا قلع قمع کرنے اور عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے وقف کردیا اور ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جس کے نزدیک حاکم صرف اللہ کی ذات ہو اور فیصلہ صرف شریعت کا ہو۔
٭ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ دونوں حالتوں میں انہیں نقصان ہی نقصان ہے چاہے فیصلہ ان کے حق میں یاان کے خلاف اور یہ کہ ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ جس حال میں وہ ہیں اسی پر باقی رہیں تو انھوں نے اپنے اصحاب رائے کی رائے کو اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خط کے مضمون کو لیتے ہوئے اپنے حق سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ یوں ایک تو ان پرہونے والے ظلم کا ازالہ ہوگیا، دوسرے انہیں شرعی عدل وانصاف کا بھی خوب اندازہ ہوگیا۔[1]
رفع مظالم میں معمولی گواہی پر اکتفاء کرنا:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ جانتے تھے کہ گزشتہ حکمرانوں اور والیوں نے رعایا پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کررکھا تھا اور ظلم وستم کے بے حد خوگر ہو چکے تھے۔ اسی لیے آپ نے مظلوم عوام کو انکے حقوق دلوانے کے لیے انہیں قطعی گواہیوں کے پیش کرنے کا مکلف نہ بنایا تھا، کہ وہ تو پہلے ہی ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔ اس لیے آپ معمولی گواہی پر ہی اکتفاء کر لیتے اور کسی قطعی گواہی کے لائے بغیر ہی مظلوم کو اس کا حق لوٹا دیتے تھے۔ ابن عبدالحکم کی روایت ہے وہ کہتے ہیں : ’’ابوزناد کہتے ہیں سیّدناعمربن عبدالعزیز کسی قسم کی قطعی شہادت کے پیش کیے جانے کے بغیر مظلوم کے حق میں فیصلہ کر دیتے تھے۔۔ چنانچہ جیسے ہی آپ محسوس کرتے کہ مظلوم پر ظلم ہوا ہے تو معمولی گواہی پر ہی فیصلہ کرکے مظلوم کو اس کا حق دلوا دیتے، اور اسے تحقیقی شہادت پیش کرنے کا مکلف نہ بناتے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ پہلے حکام نے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ آپ نے لوگوں کو ان کے حقوق اس قدر دلوائے کہ عراق کا بیت المال خالی ہوگیا اوروہاں شام سے رقوم لانی پڑیں ۔[2]
سبحان اللہ! جناب امیر المومنین عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کیا خوب کیا اور امکان بھر لوگوں پر کس قدر سہولت کی کیونکہ آپ کے طریق سے نہایت مختصر وقت میں زیادہ کام کیا گیا۔[3] دوسرے ہم آپ کے اس طرزعمل سے یہ اہم اصول مستنبط کر سکتے ہیں کہ قضائے عادی اور قضائے ارادی کے اصول کی تحقیق میں بنیادی
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۵، ۱۶/۶۲
[2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لا بن عبدالحکم،ص:۱۰۶۔۱۰۷
[3] فقہ عمربن عبدالعزیز : ۲/۵۵۸