کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 97
کی زمینوں سے نکال کر اپنی چھائونیوں میں بھیج دینا جیساکہ وہ اس سے پہلے تھے۔ اور تم لوگوں کا ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو قتیبہ کا ان کے زمینوں کو چھیننے سے پہلے کا تھا۔‘‘ چنانچہ سلیمان نے جمیع بن حاضر کو ان کے معاملہ کا قاضی مقرر کیا۔ جمیع نے سارا مقدمہ سننے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ سمر قند کے عرب اپنی چھائونیوں میں لوٹ جائیں ۔ اور وہ اہل سمر قند کے ساتھ گزشتہ معاہدہ ختم کر کے صلح کا نیا عہد کریں یا پھر دوبارہ جنگ کر کے ان کے علاقے فتح کریں ۔‘‘ اس پر اہلِ صغد [1]نے کہا کہ ہمیں گزشتہ عہد ہی منظور ہے۔ ہم کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہونا چاہتے۔ اور سابقہ صلح پر راضی ہوگئے۔ جبکہ ان کے اہل رائے نے یہ کہا ان مسلمانوں نے ہمیں اپنے ساتھ مل جل کر رہنے دیا۔ ہمیں امن دیا اب اگر دوبارہ جنگ کا فیصلہ ہوتا ہے تو نہ جانے فتح کس کو ملے۔ اوراگر فتح ہم کو نہ ملی تو ہم ان کی مفت کی عداوت مول لے لیں گے، چنانچہ ان لوگوں نے معاملہ وہیں چھوڑدیا اور نزاع ترک کر کے گزشتہ صلح کو ہی قبول کر لیا۔[2] کیا بیسویں صدی عیسوی میں بھی کوئی ایسی حکومت تھی جس نے عدل کے سامنے یوں سر جھکا دیا ہو تاکہ عدل قائم کیا جاسکے، اور اس نے حق کے سامنے یوں سر تسلیم خم کردیا ہو تاکہ حق حق والوں تک پہنچایا جاسکے؟ کیا خدانا شناس قوموں کی تاریخ میں بھی کوئی حاکم ایسا ہوا ہے جس نے مظلوموں کی پکار پر جن سے ان کے حقوق چھین لیے گئے ہوں ایسی سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ لبیک کہا ہو جیسے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہا کرتے تھے؟بے شک آپ وہ حاکم تھے جنہوں نے اطراف واکنافِ عالم میں عدل وحق کی اقدار کا دفاع کرنے کے لیے اپنی جان لگادی۔ جن دونوں کے بغیر رب تعالیٰ کی شریعت اپنے بلند اہداف واقدار کو کھو بیٹھتی ہے۔[3] بے شک یہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے انصاف کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرسکتے ہیں ۔ ٭ جب حکام عدل گستر ہوں تو عوام اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف اور اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے کیونکہ اس وقت وہ جانتے ہوتے ہیں کہ ان کے دعوی کو سنجیدگی کے ساتھ سنا جائے گا۔ اور اس میں عدل سے کام لیا جاے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سلیما ن بن عبدلملک کے دورِ خلافت میں ان لوگوں نے اپنی زبانوں کو سیٔے رکھا تھا۔ اور جیسے ہی انہوں نے سیّدنا عمربن عبدالعزیز کی عادلانہ خلافت کو دیکھا تو اپنے مسائل لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ٭ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان کے معاملہ کو یونہی نہ چھوڑدیا تھا بلکہ اسے شرعی قضاء کے حوالے کیا۔ جس سے خواب واضح ہوجاتا ہے کہ آپ شریعت اسلامیہ کے آگے سراپا تسلیم و رضا تھے اور آپ نے
[1] صُغَد : یہ ماوراء النہر کے ایک علاقہ کی قوم ہے۔ [2] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۲ [3] ملامح انقلاب الاسلامی فی خلافۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۶۸