کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 96
اسی طرح آپ نے اہل ذ مہ سے چھینی جانے والی ہر زمین یا کنیسہ یاگھر واپس کردیا۔[1] آپ نے ان ذمیوں پرڈھائے جانے والے ایک اور انوکھے ظلم کا بھی ازالہ کیا، وہ یہ کہ مسلمان ان کے ذمی ہونے کی بنا پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے ان سے بیگار لیا کرتے تھے حالانکہ ان کے ساتھ ہونے والی صلح کی شرائط میں یہ بات مذکور نہ تھی۔[2] چنانچہ آپ نے اپنے عاملوں کو یہ لکھ بھیجا کہ … میری رائے یہ ہے کہ ان ذمیوں سے بیگار لینا بندکیا جائے۔ کیونکہ یہ نراظلم ہے۔[3] ذمیوں پر ہونے والے ان مظالم کی داد رسی کا لازمی نتیجہ یہ نکلاکہ اب ان لوگوں کو بھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ اور وہ چین کی زندگی گزارنے لگے۔ آپ نے واضح کیا کہ ایک اسلامی حکومت کے زیر سایہ ان لوگوں کو امن واطمینان کی زندگی گزارنے کاپورا پورا حق ہے، دین اسلام کی روا داری اورعدل انصاف سے فیض اٹھانے کے یہ لوگ بھی مستحق ہیں تاکہ دین اسلام کی ٹھنڈی چھائوں تلے ان کی زندگی کے امور کی اصلاح ہو۔ لہذا نہ تو انہیں کوئی نقصان پہنچایا جائے نہ ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا جائے اور نہ انہیں غلام ہی بنایا جائے۔ ان کے حقوق معروف ہیں جیساکہ ان کے واجبات معلوم ہیں اور ان حقوق واجبات کی ضمانت خود شارع حکیم یعنی رب تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی ہے اور ان کی بنیادکتا ب وسنت کے احکامات ہیں ۔[4] اہل سمرقند کو انصاف: جب ماوراء النہر کے باشندوں کو سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کی اطلاع ملی توسب نے جمع ہو کر سلیمان بن ابی السری سے یہ کہا کہ ’’قتیبہ نے ہمارے ساتھ غداری کی، ہم پرظلم کیا، ہم سے ہمارے علاقے چھین لیے، اب اللہ نے عدل وانصاف کو غلبہ دیا ہے اس لیے ہمیں اجازت دیجئے کہ ہمارا ایک وفد امیر المو منین سے جامل آئے اور ہم پر ہو نے والے مظالم کی داستان جا کر سناآئے۔ پس اگر ہم سچے ہوئے تو ہمارا حق ہم کو مل جائے گا کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے، سلیمان نے انہیں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ وفد نے جا کر اپنی داستان غم والم اور رودادِ ظلم وستم سنائی توآپ نے سلیمان کو یہ خط لکھ بھیجا، ’’اہل سمر قند نے آکر مجھے اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کا قصہ سنایا ہے اور بتلایا ہے کہ قتیبہ نے جبر سے کام لیتے ہوئے انہیں ان کی زمینوں سے نکال دیا ہے پس میرا خط پہنچتے ہی ان کے لیے ایک قاضی مقرر کرنا جوان کے امر میں غور کرے۔ پس اگر تو قاضی فیصلہ ان کے حق میں کردے تو مسلمان غازیوں کو ان
[1] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص: ۲۴۵ [2] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص: ۲۴۵ [3] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لا بن عبدالحکم، ص: ۸۳ [4] عمر بن عبدالعزیزوسیاستہ فی رد المظالم،ص: ۲۴۸