کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 95
آپ نے اپنے والیوں کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی وشفقت کا سلوک کریں ۔ چنانچہ آپ نے والی بصرہ کو اس بات سے منع کیا کہ وہ اہل ذمہ سے خراج لینے کے لیے انہیں سزائیں دے۔ اس پر عدی بن ارطاۃ والی بصرہ نے خط لکھ بھیجا: ’’بات یہ ہے کہ آپ سے پہلے جب تک ہم ان لوگوں پر ذرا زور زبردستی نہ کرلیتے تھے یہ لوگ خراج نہیں دیتے تھے، اس لیے ان کو خراج دینے پرمجبور کرنے کے لیے ہمیں تھوڑی بہت سزا دینی پڑتی ہے۔‘‘ آپ نے عدی کو جواب میں یہ لکھا کہ: ’’امابعد! مجھے اس بات پر ازحد حیرت ہے کہ تم نے مجھ سے لوگوں کو عذاب دینے کی اجازت مانگی ہے تاکہ میں تیرے لیے رب کے عذاب سے ڈھال بن سکوں اورجیسے کہ میری اس بات پر رضا تمہیں عذابِ خدواندی سے بچالے گی۔ پس جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو تم یہ دستور اپنانا کہ جو تمہیں خراج دے دے قبول کر لو اورجو نہ دے اسے قسم دے دوکہ وہ ادا کرے گا۔ اللہ کی قسم! یہ ذمی اپنی خیانتوں کے ساتھ اللہ سے جاملیں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں رب تعالیٰ کو ان کو عذاب دینے کے جرم کے ساتھ جا ملوں ۔ [1] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پہلے اہل ذمہ پر ایک ظلم یہ بھی ڈھایا جاتا تھا کہ شمالی افریقہ کے قبیلہ لواتہ کی قیدی عورتوں اور لڑکیوں کو فروخت کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ آپ نے ان مظلوموں پر ہونے والے ظلم کے اس دروازے کو بھی بند کیا۔ چنانچہ ابو عبید نے ’’کتاب الاموال‘‘ میں لکھا ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لواتیات کے بارے میں شمالی افریقہ خط بھیجا کہ جس نے بھی ان میں سے کسی کو بھیجا اسے ان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ ملے گا۔ یہ دراصل ا س کی شرمگاہ حلال کرنے کی قیمت تھی۔ اور فرمایا جس کے پاس بھی ان میں سے کوئی عورت ہے وہ اس کے باپ کو نکاح کا پیغام بھیجے (اور اس سے شادی کرے) وگرنہ اس کو واپس کر دے۔‘‘ ابوعبیدلکھتے ہیں : سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے قول ’’لواتیات ‘ ‘ کامطلب یہ ہے کہ وہ عورتیں ’’لواتہ‘‘ سے تھیں جو ایک بربری قبیلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کا عہد تھا (اور وہ ذمی تھے) یہ بربر وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ابن شہاب یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بربروں سے جزیہ لیا اس کے بعد ان لوگوں نے بغاوت کی توقید کر لیے گئے۔ پھر حضرت عمربن عبدالعزیز نے ان کے بارے میں جوخط لکھا سولکھا۔[2]
[1] کتاب الخراج لابی یوسف: ۱۲۹ [2] فتوح البلدان،ص: ۱۲۶۔۲۲۷