کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 94
کا بڑھایا ہوا ہزار دینار ختم کردیا۔[1] اسی طرح عراق کے اہل ذمہ سے جزیہ میں لی جانے والی رقم میں بھی گزشتہ خلفاء نے اضافہ کر دیا ہوا تھا جس کو آپ نے آکر ختم کردیا۔ اوردراصل یہی آپ کی سیاست تھی کہ اہل ذمہ پر ہونے والے تمام مظالم کو ختم کر کے انہیں بھی شریعت اسلامیہ کی ٹھنڈی اور نرم چھائوں تلے زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ اس کی تائید اس خط سے ہوتی ہے جوآپ نے والی بصرہ عدی بن ارطاۃ کو لکھا تھا۔ جو یہ ہے :
’’امابعد !رب تعالیٰ نے صرف اس شخص سے جزیہ لینے کا حکم دیا ہے جو اسلام سے منہ موڑ کر سرکشی کرتے ہوئے کفر پر اڑا رہے۔ اور دنیا وآخرت کا صاف خسارہ اٹھائے۔ اس لیے جزیہ اس پر مقرر کرنا جو اس کے بار کا متحمل ہوسکے اور جو زمین وہ آباد کردیں اس سے تعرض نہ کرنا کیونکہ اس میں خود مسلمانوں کے معاش کی درستی ہے اور دشمنوں پرایک گو نہ قوت ہے۔ اہل ذمہ میں دیکھو جو بوڑھا ہوگیا ہو اور اب اس کی قوتیں کمز ور پڑچکی ہوں اور اب وہ کمانے کے بھی قابل نہ رہا رہو تو (بجائے اس سے جزیے لینے کے) مسلمانوں کے بیت المال سے ا س کا وظیفہ جاری کر و جو اس کے احوال کی درستی کے لیے کافی ہو۔ پس اگرکسی مسلمان کا غلام بوڑھا ہوگیا ہو اور اب اس کی قوتیں کمز ور پڑچکی ہوں اور وہ روزگار کی دوڑ دھوپ بھی نہ کر سکتا ہو تو اپنے مسلمان آقا پراس کا حق ہے کہ وہ اس کی روزی روٹی کا انتظام کرے یہاں تک کہ ان دونوں میں سے کسی کی موت ہی ان د ونوں کو آپس میں جدا کردے یا خود آقا اس کو آزاد کر دے، اور میرا یہ نظریہ اس لیے ہے کہ مجھے یہ روایت پہنچتی ہے کہ ایک دفعہ امیر المومنین سیّدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے ذمی کو لوگوں کے دروازے پر بھیک مانگتے دیکھنا تو فرمایا ’ ’ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم تیری جوانی کی کمائی سے تو جزیہ لے کر کھاتے رہے جبکہ تیرے بڑھاپے کو ہم نے ضائع کردیا۔‘‘
پھرآپ نے بیت المال سے اس کے لیے بقدر ضرورت وظیفہ جاری کرد یا۔[2]
آپ لوگوں پر ہونے والے مظالم کا سدباب کرتے اوران کی مدد فرماتے چنانچہ آپ نے والی کوفہ کو خط لکھا:
’’ان لوگوں کے احوال میں غور کرو جو جزیہ دیتے ہیں اور اب وہ کسی وجہ سے اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی سے عاجز آگئے ہیں ۔ پس تم انہیں بطور قرض کے اتنا مال دے دو جس سے وہ زمین میں کھیتی باڑی کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ کیونکہ ہمیں ا ن کی ایک یا دوسال کے لیے ضرورت نہیں ۔[3] (بلکہ ہمیشہ کے لیے ضرورت ہے)۔
[1] فتوح البلدان،ص: ۱۵۹
[2] کتاب الاموال لابی عبید،ص: ۵۷
[3] کتاب الاموال لابی عبید،ص: ۳۲۰