کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 93
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اسلام لانے والوں سے جزیہ وصول کرنے کی اجازت کا مطالبہ صرف والی مصر نے ہی نہ کیا تھا بلکہ اس بات کی اجازت کوفہ کے والی عبدالمجید بن عبدالرحیم نے بھی آپ سے مانگی تھی کہ یہود ونصاریٰ اور مجوس میں سے جو اسلام لے آئیں ہیں ان سے ڈھیروں ڈھیر جزیہ وصول کیا جائے۔ لیکن آپ نے عبدالمجید کو بھی یہ دوٹوک جواب لکھ بھیجا کہ: تم نے مجھ سے اہل حیرہ کے ان یہودیوں ، نصرانیوں اور مجوسیوں کے بارے میں پوچھا ہے جو اسلام لے آئے ہیں اور وہ اسلام لانے سے پہلے جزیہ کی مد میں ایک خطیر رقم دیا کرتے تھے، اور اب تم مجھ سے اس بات کی اجازت مانگ رہے ہو کہ اسلام لانے کے باوجود بھی ان سے یہ جزیہ وصول کیا جاتا رہے تو سن لو کہ رب تعالیٰ جل ثناء ہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی اسلام بناکر بھیجا ہے ناکہ ٹیکس وصول کرنے والا۔ لہذا ان ملتوں کے جو لوگ مسلمان ہو جائیں ان کے ذمے زکوۃ ہے ناکہ جزیہ اوراس کا ترکہ اس کے ذو رحم رشتہ داروں کا ہے جب کہ وہ اس کے مسلمان وراث ہوں ۔ اور اگر اس سے کوئی جنایت ہوجائے تو اس کا تاوان مسلمانوں کے بیت المال میں سے دیا جائے گا۔ والسلام۔[1]
بصرہ کے حاکم عدی بن ارطاۃ نے آپ کو اس بابت یہ خط لکھا: امابعد! لوگ کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں جس سے مجھے خراج کے کم ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ نے عدی کے اس خط کایہ جواب لکھا: میں نے تیرا خط (پڑھا اور خوب) سمجھا‘ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ سب انسان اسلام میں داخل ہوجائیں یہاں تک کہ میں اور تم کھیتی باڑی کرکے اپنے ہاتھ کی کمائی کھائیں ۔[2]
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے موالی کو ہجرت کرنے کی بھی اجازت دی جس پراس سے قبل حجاج نے عراق میں بندش لگا رکھی تھی۔ موالی پر ہونے والے مظالم کی داد رسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو ان کے وہ حقوق مل گئے جو ان سے چھین لیے گئے تھے۔اور اب انہیں ہر قسم کے ظلم و ستم سے امن اور قلبی اطمینان نصیب تھا۔ اوراب وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ عدل ومساوات کی زندگی گزرنے لگے تھے۔[3]
خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنے دور میں اہل قبرص پر جزیہ کی رقم میں بے حد اضافہ کر دیا تھا۔ جبکہ قبرص کے محاذ پر جناب سیّدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے خود جنگ کی تھی اور اہل قبرص کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سات ہزار دینار رسالانہ پر صلح فرمائی تھی۔ اور یہ بھی طے کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اپنی خیر خواہی میں کبھی تبدیلی نہ آنے دیں گے۔ اورمسلمانوں کے دشمن روم کو ڈراتے رہیں گے۔ عبدالملک بن مروان تک اہل قبرص کے ساتھ یہی معاہدہ برقرار رہا۔ لیکن عبدالملک نے آ کر صلح کی رقم میں ایک ہزار کا اضافہ کر کے اسے آٹھ ہزار دینار مقرر کر دیا یہ رقم سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد تک باقی رہی۔ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد عبدالملک
[1] کتاب الخراج لابی یوسف،ص: ۱۴۲
[2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۹۹۔۱۰۰لابن الجوزی
[3] عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی رد المظالم،ص:۲۳۴