کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 91
اور وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑے ذکر کر رہا ہوتا تھا۔ اور خادموں سے کلمہ پڑھتے ہوئے کہتا: اسے فلاں فلاں (عذاب دینے کی) جگہ باندھ دو۔ غرض یزید کے حالات بد سے بدتر تھے اس لیے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسے بھی معزول کردیا۔[1]
غرض آپ نے ظالم حکمرانوں اور والیوں کو ان کے مناصب سے معزول کر کے ان کی جگہ صالح اور نیکوکار افراد کو متعین کیا۔ ان شاء اللہ آگے چل کر ا س موضوع پربھی سیر حاصل گفتگو کی جائے گی کہ والیوں کے ساتھ معاملات اور رویوں کی بابت آپ کی فقہ کیا تھی۔
موالی کو مظالم سے نجات دلانا:
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے قبل موالیوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان میں سے اسلام لانے والے پرجزیہ مقرر کیا جاتا، انہیں ہجرت کرنے سے روکا جاتا، جیسا کہ عراق، مصر اور خراسان میں ہوا۔ سلیمان ابن عبدالملک کے دور میں حجاج نے ان پر بے حد پناہ ظلم ڈھائے۔ حجاج نے ان پر جزیہ باقی رکھا اور انہیں ہجرت کر نے سے بھی روکے رکھا۔ ظلم کی اس روش نے ان موالی کو ابن اشعث کی حجاج کے خلاف برپا کی جانے والی بغاوت میں ان کے ساتھ شریک ہونے پر آمادہ کیا۔،مصر اور خراسان میں بھی موالی کا حال اچھا نہ تھاانہیں ظلم وتشدد کا نشان نہ بنایا جاتا تھا۔
چنانچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اس مظلوم طبقے کی بھی دادرسی کی اور انہیں گزشتہ حکمرانوں کے مظالم اور زیادتیوں سے نجات دلائی۔ چنانچہ آپ نے اپنے والیوں کولکھ بھیجا کہ’’آج اہل جزیرہ میں سے جو یہودی، نصرانی یا مجوسی اسلام قبول کرتا ہے اور وہ اپنا دار چھوڑ کرمسلمانوں کے دار میں آملاہے تو ا سکے بھی وہی حقوق وواجبات ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اورمسلمانوں کے ذمہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کریں اور اس دیار غیر میں اس کے ساتھ عدل ومساوات کارویہ اختیار کریں بے شک یہ زمینیں اللہ نے مسلمانوں کو غنیمت میں دی ہیں لہٰذا اگر مسلمانوں کے ان زمینوں کو فتح کرنے سے پہلے یہ لوگ اسلام لے آئے ہیں تو یہ انہیں کی ہیں ۔ البتہ یہ سب مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے غنیمت ہیں جو جنگ کے بغیر ملی ہیں ۔[2]
آپ نے والی مصر حیان بن شریح کو خط میں یہ لکھا: اہل ذمہ میں سے جو بھی اسلام قبول کر لیتا ہے اس پر سے جزیہ کو ساقط کردو۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ َو
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدلحکم،ص: ۳۲۔۳۳
[2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۷۸۔۷۹