کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 90
ہوتی ہے کہ کوئی تمہیں نماز پڑھتے نہ دیکھے۔ میں نے تمہیں نماز کو بہت عمدہ کر کے ادا کرتے دیکھا ہے۔ پس یہ تلوار تم لے لو اور میں نے تمہیں اپنے محافظوں میں رکھ لیا۔[1]
یوں آپ نے ظالم والیوں کومعزول کردیا اور دوسرے والیوں اور قاضیوں کو تعینات کر نے میں آپ کا اسلوب یہی تھا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ کہ آپ کسی بھی عہدے کے لیے نہایت نیکوکار اور امانت دار شخص کو تلاش کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ کسی کو والی منتخب کرلیتے تو اس کے سامنے اپنی جائے سجدہ کو ہاتھ میں پکڑی قمچی سے کریدتے اور کہتے’’تیرے بارے میں مجھے اس چیز نے دھوکا دیا ہے آپ کی مراد اس آدمی کے ماتھے پر موجود کثرتِ سجود کی بنا پر پڑنے والا نشان ہوتا تھا، جو کسی شخص کے نیکو کار ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ اوراسی بنا پر آپ اس شخص کو ولایت کے لیے منتخب کرتے تھے۔ البتہ آپ کسی کے صرف ظاہر سے ہی متاثر نہ ہوتے تھے بلکہ اس کا پورا پوار امتحان بھی لیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کثرت کے ساتھ نماز پڑھنے کا عادی ہے تو آپ نے اسے والی بنانے کا فیصلہ کر لیا اس غرض کے لیے اور اس کا امتحان لینے کے لیے آپ نے اپنے خواص میں سے ایک شخص کو اس کے پاس بھیجا۔ ان صاحب نے اس نمازی سے جا کر کہا’’اے بھائی! تم توجانتے ہی ہو کہ خلیفہ کی نگاہوں میں میرا کیا مقام میں چاہوں تو تمہیں کسی شہر کا والی لگوا سکتا ہوں ۔لیکن میرا حصہ کتنا ہوگا؟وہ صاحب فوراً بولے! ایک سال کی تنخواہیں تیری ان صاحب نے جا کر خلیفہ کو اس شخص کا حال گوش گزار کر دیا۔ آپ نے اس کو امتحان میں نا کام ہوجانے کی بنا چھوڑ دیا۔‘‘[2]
معزول کیے جانے والے ظالم اور بے رحم والیوں میں سے ایک اسامہ بن زید تنوخی بھی تھا جو مصر کے خراج پر مقرر تھا۔ اسامہ پر لے درجے کا ظالم اور بغیر کسی شرعی دلیل کے سخت سزائیں دینے والا انسان تھا۔ حتی کہ بعض لوگوں کے ہاتھ پائوں تک کاٹ دیتا اور یہ بھی نہ دیکھتا کہ اس سزا کی شرائط پوری بھی ہوئیں ہیں یا نہیں ۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے شام کے ہرشہر میں ایک سال قید میں رکھا جائے۔ اور اسے زنجیروں میں جکڑا جائے جو صرف نماز کے لیے کھولی جائیں اورنماز کے بعد اسے دوبارہ زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ چنانچہ اسامہ ایک سال مصر میں اور ایک سال فلسطین میں قید رہا۔ ا سکے بعد سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کے بعد ولید نے خلافت سنبھالتے ہی اسامہ کو رہا کر کے دوبار مصر کا والی خراج بنادیا۔[3]
افریقہ کا والی یزید بن ابی مسلم تھا، نہایت برا لیکن بظاہر بڑا عبادت گزار تھا۔ اذیت پسندی فطرت ثانیہ تھی ظلم وجور کا رسیا تھا۔ اسی لیے سلاطین کی ان باتوں کو ماننے میں بے حد مستعدی دکھلاتا تھا جو ظلم وبربریت پر مبنی ہوتی تھیں ۔ حق کی مخالفت سے لطف اٹھاتا تھا۔ لوگوں کو اس کے سامنے سخت سزائیں دی جارہی ہوتی تھیں
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص: ۵۰ ازابن جوزی
[2] فقہ عمربن عبدالعزیز: ۱/۹۱ از محمد شقیر
[3] سیرۃعمر بن عبدالعزیزلابن عبدالحکم،ص: ۳۲