کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 89
ابن موسی کہتے ہیں : سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت سنبھالتے ہی مظلوموں کو ان کے حقوق واپس کرنے شروع کیے یہاں تک کہ رب سے جاملے۔[1]
ایک دن چند مسلمان حاضر خدمت ہوئے ان کا روح بن ولید بن عبدالملک کے ساتھ چند دکانوں کی بابت جھگڑا تھا۔ انہوں نے اپنے دعوی کے حق میں روح کے خلاف گواہ پیش کردیے جس پرآپ نے روح کوحکم دیا کہ وہ ان دکانوں پر سے اپنا قبضہ چھوڑ کر ان کے حوالے کر دے۔اور ولید کے سفارشی خط کی ذرا پروانہ کی۔ روح نے اٹھتے ہوے ان مظلوموں کو دھمکیاں دیں ۔ ایک صاحب نے مارے ڈر کے سارا قصہ آپ کو سنا دیا۔ آپ نے فوراً ایک غلام کو حکم دیاکہ روح کے پیچھے جائو۔ اگر وہ دکانوں پر سے قبضہ نہ چھوڑے تو اس کی گردن مار دینا۔ روح نے جان کے ڈر سے دکانیں ان مسلمانوں کو واپس کر دیں ۔[2]اسی طرح چند اعرابیوں نے ایک بنجر زمین کو کاشت کر کے زندہ کیا۔ ولید نے ان سے وہ زمین چھین لی۔ اور اپنے افراد خانہ میں سے کسی کو دے دی تھی۔ آپ نے ان اعرابوں کو ولید سے وہ زمین واپس دلوائی۔ اور یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے کسی بنجر زمین کو(کا شت کر کے)زندہ (اور پیداوار کے لائق ) کردیا تو وہ زمین اسی کی ہوگی۔‘‘[3]
آپ کو آلِ بیتِ رسول اللہ سے بے حد محبت تھی۔ آپ نے انھیں ان کے حقوق دلوائے۔ چنانچہ ایک دن آپ نے فاطمہ بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے بنت علی! اللہ کی قسم! مجھے روئے زمین پر تم لوگوں سے زیادہ محبوب اورکوئی نہیں ۔بے شک تم لوگ مجھے گھروالوں سے بھی زیادہ محبوب ہو۔[4]
سب ظالم ولاۃ وحکام کا معزول کرنا:
بارِ خلافت سنبھالتے ہی آپ اس اہم ترین مسئلہ کی طرف بھی متوجہ ہوئے، چنانچہ آپ نے سب ظالم حاکموں اور والیوں کو بیک قلم معزول کر دیا۔ جن میں خالد بن ریان بھی تھا جو سلیمان بن عبدالملک کا وہ خصوصی جلاد تھا جو سلیمان کے حکم پر لوگوں کی گردنیں مارا کر تا تھا۔ چنانچہ آپ نے خالد کو معزول کر کے اس کی جگہ عمرو ابن مہاجر کو متعین کیا اور کہا’ ’ اے خالد! یہ تلوار رکھ دے۔ پھر یہ دعا مانگی ’’اے اللہ ! میں نے تیرے لیے خالد ابن ریان کو معزول کردیا۔اے اللہ! تو اس کو کبھی اوپر نہ لانا۔ پھر عمرو بن مہاجر سے فرمایا: ’’اے عمرو! اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میرے اور تمہارے درمیان اسلام کے رشتہ کے سوا کوئی رشتہ نہیں ۔ البتہ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے کہ تم تلاوت کی کثرت کرتے ہو اور میں نے دیکھاکہ تم ایسی جگہ نماز پڑھتے ہو کہ تمہاری خواہش
[1] الطبقات لابن سعد: ۵/۳۴۱
[2] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم، ص: ۶۰
[3] صحیح الجامع البانی، رقم: ۲۷۶۶
[4] سیرۃ و مناقب عمر بن عبدالعزیز لابن الجوزی، ص: ۱۳۱۔