کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 88
ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے بنوامیہ کو جاکر یہ کہا: یہ سب تمہارے کرموں کا نتیجہ ہے۔کیوں تم لوگوں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں شادی کی۔ دیکھو اب یہ بالکل اپنے نانا کی طرح نکلا ہے یہ سن کر سب خاموش ہوگئے۔[1]
بنوامیہ کے اجتماعی اختلاف کا ختم ہونا:
غرض جب بنوامیہ نے اپنی گزشتہ جائیدادوں اورمال ودولت کے بارے میں سیّدناعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ٹھوس اور غیر متغیر موقف کو دیکھا تو آپ سے اجتماعی طور پر اختلاف کرنا بند کردیا اور بول اٹھے کہ آج کے بعد کچھ نہ ہوگا۔[2] پھر ہر ایک اپنے اپنے اموال کو واپس لینے کی انفرادی سطح پر حتی الامکان کو ششوں میں لگ گیا۔لیکن جس شخصیت نے ان کی اجتماعی کوششوں کے آگے لچک نہ دکھلائی اور جھکے نہیں ، وہ بھلا کسی کی شخصی کوشش کے آگے نرم پڑسکتا تھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ امت کا حق ہے لہٰذا ان جائیدادوں اور مال ومنال کی بابت کسی بھی دن بھائو تائو نہ ہوسکتا تھا۔[3]
حق والوں کے حقوق ان کے دروازوں پر:
آپ نے محض یہ ہی نہ کیا کہ بنوامیہ کے ہاتھوں سے ناجائز اموال چھین کر ان کو بیت المال میں جمع کروادیا۔ بلکہ آپ نے اگلا قدم یہ اٹھایا کہ آپ نے سب لوگوں میں اس بات کا اعلان کروا دیاکہ افراد امت اور ملت اسلامیہ میں سے جس کسی کا بھی کسی امیر یا بنو امیہ کی کسی جماعت پرکوئی حق ہو یا ان لوگوں نے ان سے ان کا کوئی حق چھین رکھا ہو وہ گواہ لا کر اپنا حق واپس لے سکتا ہے۔ پھر تو جیسے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر مظلوم گواہ لے کر پہنچا اور آپ اسے اس کا حق دلواتے رہے کیا کھیتیاں ، کیا جائیدادیں اور کیا مالی دعوے۔ جس نے جس دعوے پر گواہ پیش کیے اسے وہ دلوادیا گیا۔[4]
ایک دفعہ والی بصرہ نے آپ کے پاس کسی مظلوم کو بھیجا جس کی جائیداد چھین لی گئی تھی تو آپ نے اسے وہ زمین واپس دے کر فرمایا تمہارے یہاں تک آنے جانے میں کتنی رقم خرچ ہوئی ہے۔؟ وہ بولا۔’’امیر المومنین! آپ مجھ سے آنے جانے خرچ کے بارے میں پوچھتے ہیں حالانکہ آپ نے مجھے میری زمین واپس کردی ہے جو ایک لاکھ سے بہتر ہے آپ نے اسے جواب دیا : میں نے تمہیں تمہارا حق واپس کیاہے (کوئی احسان نہیں کیا) پھر تھوڑی دیر بعد اسے ساٹھ درہم سفر خرچ دینے کا حکم دیا۔[5]
[1] الکامل فی التاریخ ۳/۲۷۱۔
[2] عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم: ۵۸۔۵۹
[3] ملامح الا نقلاب الاسلامی فی خلافۃ عمر، ص: ۱۱۹
[4] ملامح الانقلاب الاسلامی فی خلافۃ عمر،ص: ۱۲۰
[5] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۱۴۶۔۱۴۷